”بیٹیاں قوم کی“

جنت میں ایک مقدس اور پاکیزہ جگہ کا نام ہے۔ قرآن پاک میں بار بار جنت کا ذکر کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ان نیکوکاروں، پرہیزگاروں کے لئے ہے جو اپنی زندگیاں اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کے مطابق بسر کرتے ہیں۔ دوسروں کی ضرورتوں کو اپنی ضرورتوں پر مقدم رکھتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت و فلاح کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔
 خاتم النبین نے فرمایا کہ:
 ”جنت تمہاری ماﺅں کے قدموں کے نیچے ہے“
یعنی ماں کے مقام و عظمت کو جنت سے بھی بلند و بالا کر دیا کہ ماں کی عزت کرو، ادب کرو، ہر طرح سے اس کی تکریم کرو تو جنت تمہاری۔ تو یہ ماں پہلے کسی کی بیٹی اور بہن بھی ہوتی ہے۔ یہ حوا کی بیٹی تو ہے ہی۔ یہ ہم سب کی بھی بیٹی ہے۔ آج یہ رسوا کیوں ہے؟ کیوں آج ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ایک ہی گھر کی پانچ بیٹیاں صرف اس لئے خودکشی کر لیتی ہیں کہ غربت کے باعث ان کی شادی نہیں ہو سکتی۔
ہم تو ماشاءاللہ مسلمان کہلاتے ہیں۔ کیا صرف نماز کی ادائیگی، روزہ رکھنا یا پھر حج کر لینے کا نام ہی اسلام ہے۔ اسلام تو سلامتی کا نام ہے دوسروں کی سلامتی و بھلائی چاہنے کا نام ہے۔ ہم کس قسم کے بے حس معاشرے میں رہتے ہیں کسی کو دوسرے کا احساس و درد ہی نہیں۔ ذاتی اور جھوٹی نمود و نمائش کے لئے لاکھوں روپیہ پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے۔
 ہمارے معاشرے میں ایسے بھی اہل ثروت ہیں جنہیں اللہ نے نوازا ہے اور وہ ہر سال حج پر جاتے ہیں۔ اگر وہ صاحبان اپنے گلی محلے میں آس پاس نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ کوئی بیٹی ایسی تو نہیں ہے جو محض جہیز اور غربت کی وجہ سے گھر بیٹھی ہو۔
کیا انہیں حضور پاک کا ارشاد یاد نہیں رہا کہ انہوں نے حضرت علیؓ سے فرمایا ”تین کاموں میں دیر نہ کرنا، ایک جب نماز کا وقت آ جائے تو اسے ادا کرنے، دوسرا جب جنازہ آئے تو اس کے پڑھانے میں اور تیسرا جب لڑکی جوان ہو جائے تو اس کے نکاح میں دیر نہ کرنا۔
معصوم اور چھوٹی چھوٹی بچیوں کی عزت کو درندے پامال کر رہے ہیں۔ ہر روز دل چھلنی کر دینے والی ایسی بھیانک خبریں ملتی ہیں۔ ہمارے ہاں تو حکمران طبقے کا کام ہی جھوٹے وعدے کرنا، جھوٹی تسلیاں دینا اور اپنی جیبیں بھرنا ہوتا ہے۔ معاشرے کو خود کردار ادا کرنا ہو گا۔ دکھی اور بے بس لوگوں کے کام آنا، ان کے دکھ درد بانٹنا، ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ مجرموں کو سزا دینے کا مقصد صرف مظلوم کو انصاف دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کے لئے درس عبرت بھی ہوتا ہے۔
بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ حکومت وقت کو فوراً قانون سازی کرنی چاہئے۔ اگر من پسند افراد کے لئے راتوں رات قانون سازی کی جا سکتی ہے تو نواز شریف صاحب بیٹیوں کی ناموس کے لئے فوراً سخت سے سخت قانون بنانا چاہئے اگر کوئی بھی معصوم بچی کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے فوراً سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے۔ اگر یہ قانون بن جاتا ہے تو موجودہ حکومت کا ایک عظیم کارنامہ ہو گا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں سزا صرف غریب بے بس کا مقدر ہے۔ اہل ثروت اور بااثر افراد جو چاہیں کریں کوئی پوچھنے والا نہیں مگر بیٹی چاہے غریب کی ہو یا امیر کی، مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی، دشمن کی ہو یا دوست کی وہ سب کی بیٹی ہے۔ اس کی عزت، ناموس سب کے لئے مقدم ہے۔ یہی اسلام کی تعلیم ہے اور ہمارے آقا کا حکم بھی۔

ای پیپر دی نیشن