چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف صدر جنرل پرویز مشرف نے ریفرنس دائر کرکے ان کو معطل کیا تو پوری قوم ان کی بحالی کے لئے سڑکوں پر نکل آئی۔ وکلاءنے اپنے انداز میں بھر پور تحریک چلائی۔ بڑے وکلا ءمیں سے کسی نے جسٹس افتخار کا ڈرائیور ہونے اعزاز حاصل کیا، کسی نے ان کے ساتھ سفر کو فخر جانا۔
بے لاگ تبصرہ کیا جائے تو جسٹس افتخار بلا شبہ پاکستان کا افتخار ہیں۔ انہوں نے عدلیہ کی تاریخ میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔انہوں نے جس جرات اور جواں مردی سے فیصلے کئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ سٹیل مل کیس سے لے کر لاپتہ افراد کی بازیابی تک بےشمار فیصلے کرنا اور از خود نوٹس کر انصاف فراہم کرنا ان کا ہی طرہ امتیاز ہے۔انہوں کرپشن کے ذریعے لوٹے گئے کھربوں روپے قومی خزانے میں جمع کرائے۔ ہر ادارے اور شعبے میں میرٹ کی کارفرمائی کے لیے اپنی سی کوشش کی۔انصاف کی بے لاگ فراہمی کی کوششوں کے اعتراف میںان کو عالمی اداروں کی طرف سے اعزازات اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔یہ عزت جسٹس افتخار کی بدولت پاکستان کے حصے میں آئی۔
آخر وہ بھی ایک انسان ہیں ۔غلطیوں مبرا نہیں ہوسکتے ۔ لیکن کسی ایک لغزش کو لے کے بیٹھ جانا اوران کے خلاف محاذ کھڑا کر لینا قرینِ انصاف نہیں۔وہ رواں سال12 دسمبر کو ریٹائر ہورہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ انصاف کی سر بلندی ، بنچ و بار کو قریب ترلانے کی خدمات کے اعتراف میں ان کو باوقار طریقے سے رخصت کیا جاتا، وکلاءکو ایک گروہ جن کی تعدا د آٹے میں نمک سے زیادہ نہیںوہ ان کے خلاف محاذ بنا کر کھڑا ہوگیا ہے ۔ گو کہ یہ وکلاءنامور ہیں لیکن وہ اس برادری کے نمائندہ نہیں ہیں۔ ایسا کرنا ہے تو پھر ان میں اور آمر میں فرق کیا رہ جاتا ہے ؟۔ویسے وکلاءکی اکثریت اس فعل پرخاموش تماشائی بن کے تو نہیں بیٹھی رہے گی۔بنچ اور بار ایک ہی گاڑٰ ی کو دو پہئے ہیں۔ عدلیہ کی گاڑی دونوں پہیوں کے صحیح سلامت ہونے سے ہی رواں رہ سکتی ہے۔ایک طرف چند وکلاءنے چیف جسٹس کے خلاف محاذ کھڑا کیا ہے دوسری طرف سابق حکمرانوں کی طرح موجودہ حکمرانوں کا عدلیہ کے حوالے سے رویہ مثبت نہیں ہے ۔ عدالتی فیصلوں ، احکامات اور ہدایات کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ حالات یہاں تک آگئے کہ چیف جسٹس کو یہ کہنا پڑا کہ اس سے سابق حکومت بہتر تھی اُس دور میں کچھ نہ کچھ لاپتہ افراد باز یاب ہو جاتے تھے اب کوئی بھی نہیں ہورہا۔بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات کا مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ اسی حکومت نے نومبر میں بلدیاتی انتخابات کرانے کو کہا تھا ۔ اس کی” نیک نیتی“ اس سے ظاہر ہوگئی کہ اب سپریم کورٹ میں جاکر 14دسمبر کو بلدیاتی الیکشن کرانے کا کہا ہے ۔اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ماہرین کہتے ہیں حکومت کی بلدیاتی الیکشن کرانے نیت ہی نہیں ہے ۔چیف جسٹس افتخار محمد چودھری آئین کی خلاف ورزی کرنے کی حکومت کو اجازت نہ دینے کے لئے پُر عزم ہیں ۔ وہ چونکہ 12نومبر ریٹائر ہو رہے ہیں اس لئے حکومت نے ان کی ریٹائرمنٹ کے دو دن بعد کی تاریخ دے دی۔
گزشتہ دنوںخود کو جسٹس افتخار کے مقابل لانے والے وکلا کے جتھے کا لاہور میں اجتماع ہوا جس میںجسٹس صاحب کے خلاف کھل کر بھڑاس نکالی گئی۔یہ لوگ کسی کی محبت میں اتنا آگے چلے گئے کہ توہین عدالت قانون کو آزادی اظہار کے بنیادی حق سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ یہ بھی کہہ گزرے کہ توہین عدالت کے قانون کو افراد کے جاہ و جلال کی حفاظت کی بجائے عدلیہ کے وقار کے تحفظ کےلئے ہونا چاہئے۔ ہمیں یہ راگ بھی سننے کو ملا کہ وکلاءتحریک کسی ایک شخص کیلئے نہیں تھی۔
وکلاءتحریک صرف اور صرف جسٹس افتخار کی بحالی کے لئے تھی اور کامیاب بھی ان کی ذات کے باعث ہوئی۔آج ڈینگیں مارنے والے وکلاءاُس تحریک میں کسی ایک اجتماع جیسا جلسہ کر کے دکھادیں۔ میں نے اس تحریک کے دوران ”افتخار پاکستان “کے نام جسٹس افتخار کی جرات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے کتاب لکھی ۔میں اس کے بعد آج تک ان کے سامنے کسی کیس میں پیش نہیں ہوا۔ مبادہ کسی فیصلے کے کے متاثر ہونے کامعمولی سا بھی شائبہ ہو۔ جبکہ اعتزاز احسن نے ایسا کہا لیکن اپنے قول پر قائم نہ رہ سکے۔ جسٹس افتخار کواپنے کندھوں پر بٹھانے اور اب لوگوں کی نظروں سے گرانے کی کوشش کرنے والے وکلا ءکو دعوت فکر دیتا ہوں کہ اپنی اداﺅں پر غور کریں۔ وہ سیاست ضرور کریں مگر سیاسی پارٹیوں کا آلہ کار نہ بنیں۔ اسی میں ان کی عزت اور عدلیہ کا وقار ہے۔