گزشتہ سال سام باسیل کی ڈائرکشن میں امریکہ میں تیار کی گئی اسلام مخالف فلم”انوسنس آف مسلمز“ کے ریلیز ہوتے ہی عالم اسلام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔جب اسے یو ٹیوب پر اپ لوڈ کیا گیا تومسلم دنیا میں ایک آگ سی لگ گئی۔لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر حملہ میں امریکی سفیر سمیت چار دیگر افراد ہلاک کردئیے گئے۔پاکستان میں کئی روز مظاہرے ہوتے رہے ۔ پولیس کے ساتھ جھڑپوں کئی افراد مارے گئے۔مظاہرین کے مطالبات میں یو ٹیوب بندش بھی تھا۔ 17 ستمبر 2012 کو یو ٹیوب بند کرتے ہوئے حکومت نے کہا کہ جب تک نبی کریم کے توہین آمیز خاکے اور فلم ہٹائی نہیں جاتی یو ٹیوب بند رہے گی ۔اس کے بعد سے یہ ویب سائٹ بند ہے۔
یو ٹیوب پر ایسی پابندی پہلی بارنہیں لگی ترکی میں بھی لگ چکی ہے ۔ ترکی کی جدید جمہوریت کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کے حوالے سے توہین آمیز وڈیوز موجود ہونے کی بنیاد پر ترکی میں یو ٹیوب پر تین سال مارچ 2008ءتا نومبر 2010ءبند رہی ۔ یہ فیصلہ استنبول، انقرہ اور سیواس کی مقامی عدالتوں نے دیا تھا۔ یہ پابندی ایک ایسے قانون کا حصّہ تھی جس سے حکومت کو یہ اتھارٹی مل گئی کہ وہ آٹھ جرائم پرکسی بھی ویب سائٹ کوابندکیاجا سکتا۔ان میں بچوں کا فحش مواد، عصمت فروشی، جوا اوراتاترک کے خلاف مہم شامل ہے۔ یو ٹیوب پر ایسی ویڈیوز پر بھی پابندی عائد کر دی گئی جن میں اتاترک اور ترکوں کو ہم جنس پرستوں کے طور پر پیش کیا گیا۔
یوٹیوب پر ہر قسم کی فلمیںاور لٹریچر جس تعداد اور مقدار میں موجود ہے اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔مثبت منفی سب کچھ اس ویب سائٹ پرموجود ہے۔ قرآن کریم کی قرآت کے ساتھ تلاوت، ترجمہ، احادیث بے شمار اسلامی کتب موجود ہیں۔تحقیق کیلئے یوٹیوب ایک بہترین ذریعہ ہے یہ گوگل کی ملکیتی ویب سائٹ ہے گوگل کے ساتھ ساتھ کئی دیگرویب سائٹس پر نبی کریم کے توہین آمیز خاکے موجود ہیں۔ یوٹیوب پر آپ تلاوت سن سکتے ہیں،قرآن و حدیث پڑھ سکتے ہیں مقدس مقامات کی ویڈیو دیکھ سکتے ہیں، توہین آمیز خاکے یا فلمیں خود بخود سامنے نہیں آجاتے۔ یوٹیوب پر آپ اپنی کسی بھی تقریب کی ویڈیویا لٹریچر اپ لوڈ کر سکتے ہیں ۔جسے اپ لوڈ کرنے والا ہٹا سکتا ہے یا کمپنی یعنی یوٹیوب کی انتظامیہ۔ اس فیلڈ کے ماہرین جس حصے کو چاہیں سبوتاژ کر سکتے ہیں۔ ہمارے یوٹیوب تو بند کردی لیکن اس کا متبادل سامنے لانے کی سعی نہیں کی گئی ۔ گوگل انتظامیہ مذکورہ فلم اور خاکے ہٹانے پر تیار نہیں۔ ان کارٹونوں کے خلاف ایمانی جذبہ رکھنے والے جلسے، جلوسوں اور مظاہروں میں سر بکف ہو کر گئے۔ عشق رسول کا اظہار کیا اور اس کے بعد لمبی تان کر سو گئے۔ کسی این جی او یا علماءکے گروپ نے یوٹیوب ،گوگل اور دیگر ویب سائٹس سے یہ خاکے اور فلمیں ہٹانے کی مہم نہیں چلائی ۔ کمپیوٹر کے ماہرین کوبھی ٹاسک نہیں دیا گیا ۔اس مقصد کے لیے انٹرنیٹ ٹریفک پر ایسے فلٹرز کی تنصیب کی تجویز بھی پیش کی گئی جو اس مواد کو روک سکیں لیکن اس تجویز کو بھی تاحال عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔
یوٹیوب کہنے تو پاکستان میں بند ہے عملی طورپر ایسا نہیں ہے۔ ایک سوفٹ ویئر انسٹال کرنے پر یوٹیوب اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ کمپیوٹر کی سکرین پر جلوہ گر ہوجاتی ہے۔ جس مقصد کیلئے یہ بند ہوئی گویا وہ حاصل نہیں ہوسکا۔ یوٹیوب اگر کھل جائے تو بہت سے پاکستانی اس سے استفادہ کرسکیں گے لیکن اس سے قبل کسی بھی طریقے سے گستاخانہ مواد اس سے ہٹایا جانا ضروری ہے۔ نہ صرف یوٹیوب بلکہ دیگر سائٹس کو بھی گستاخانہ خاکوں فلموںاورلٹریچر سے پاک ہوناچاہئے۔ہم پاکستانی نقل کے معاملے میں اصل کو بھی مات دینے میں ماہر ہیں۔یوٹیوب کا متبادل سامنے آجاناچاہئے تھا۔ڈیلی موشن ڈاٹ کا م پاکستان میں یوٹیوب کے متبادل کے طورپر چل رہی ہے اس پر بھی گستاخانہ موا د موجود ہے۔ ۔چین نے www.youku.com کے نام سے یوٹیوب کا متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ معیار چین کے موبائل، ٹی وی اور دیگر مصنوعات کی طرح کا ہے، معلومات بھی انتہائی محدود ہیں۔
یوٹیوب کھولنے یا کھلوانے کیلئے سابق اور نگران حکومت کی طرح ن لیگ کی حکومت بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہی۔وجہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں کہ ان کو ان کے عزیز رشتہ داروں کو یو ٹیوب تک Ultra surf کے ذریعے رسائی حاصل ہے۔
بی بی سی کے مطابق موجودہ حکومت بھی یو ٹیوب کی بحالی کے لیے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی ۔ وفاقی وزیر برائے انفارمیشن اور ٹیکنالوجی انوشہ رحمان نے ابتداءمیں تو اس معاملے کے حل کے لیے اقدامات کے اعلانات کیے لیکن ان اعلانات کوہنوز عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ نگراں حکومت میں انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کی وزیرثانیہ نشتر نے اس معاملے پر اپنی جانشین وزیر کے لیے ایک دستاویز بھی تیار کی تھی۔ جس میں کہا گیا ہے” ’میں تکنیکی اور قانونی ماہرین سے تفصیلی مشاورت اور ان کے ساتھ اس موضوع پر کام کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ یو ٹیوب پر عائد پابندی ہٹانے کا کوئی فوری طریقہ موجود نہیں ہے۔ ایسا اب صرف نئی قانون سازی ہی سے ممکن ہے۔“
عبوری حکومت کی وزیر ثانیہ نشتر کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں یو ٹیوب کی مالک کمپنی گوگل کی انتظامیہ، تکنیکی ماہرین اور ان ممالک کے حکام سے بھی رائے لی گئی جہاں پر یو ٹیوب پر یہ متنازع ویڈیو بلاک کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے لیے مخصوص قابلِ اعتراض مواد کو خود بلاک کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یو ٹیوب کا پاکستان کے لیے مخصوص ڈومین حاصل نہ کیا جائے۔ اس ڈومین کے حصول کے لیے حکومت کو کمپنی کو تحفظ کی ضمانت دینا لازم ہے جس کے لیے قانون سازی یعنی الیکٹرانک کرائم بل میں ترمیم کی ضرورت ہے۔انٹرنیٹ کے ماہرین کا بھی یہ کہنا ہے کہ یہ مسئلہ تکنیکی سے زیادہ حکومتی عدم دلچسپی کا ہے۔