اٹلی اور جرمنی میں پاکستان کے سابق سفیر اور قومی اسمبلی کے سابق رکن میاں عبدالوحید کا یہ کہنا سوفیصد درست ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ بڑی مچھلی ،چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔ قیام پاکستان کے موقع پر کشمیر سمیت جونا گڑھ،مناودر اور حیدرآباد پر بھارت کا قبضہ کرنا بھارت کی پاکستان دشمنی کا کھلا ثبوت تھا۔پھر سقوط مشرقی پاکستان میں بھارت کے کردار سے یہ بالکل واضح ہوگیا کہ بھارت کبھی پاکستان کا پُر امن ہمسایہ اور دوست بن کر نہیں رہ سکتا۔بھارت سے دوستی اور امن کی باتیں اور بھارت سے امن کی معمولی سی بھی امید رکھنا احمقوںکی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔بھارت کا پاکستان کے حصے کے پانی کو روکنے کیلئے دریاﺅںپر ڈیم اور بیراج بنانا پاکستان کی زمینوںکو بنجر بنادینے کی گہری سازش ہے۔بھارت سے یہ توقع رکھنا بھی حماقت ہے کہ وہ شرافت اور سفارت کاری کی زبان کو سمجھتا ہے۔پاکستان اگر آج ایک ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو بھارت کب کی ہمارے خلاف 1971ءجیسی کارروائی کر گزرا ہوتا۔بھارت کے مستقل جارحانہ عزائم دیکھتے ہوئے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانا ناگریز تھا۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی اور اُن کا یہ عزم تھا کہ پاکستان کے عوام گھاس کھا کر گزارہ کرلیں گے لیکن ایٹم بم ضروربنائیں گے۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی اگر ذوالفقار علی بھٹو تھے تو پاکستان کے ایٹمی بم کے معمار بلاشبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔میاں عبدالوحید بتا رہے تھے کہ وہ تاریخی خط جس کے ذریعے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی خدمات پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے حوالے سے پیش کی تھیں اگر ذوالفقار علی بھٹو تک نہ پہنچتا تو شاید کبھی بھی پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں ہم کامیاب نہ ہوتے۔کیوں کہ منیر خاں کی سربراہی میں اٹامک انرجی کمیشن کی ٹیم ایٹم بنانے میں مکمل طورپر ناکام ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی قابلیت کے علاوہ ان کی کسی بھی معاملہ میں فوری فیصلہ لینے کی صلاحیت نے بھی پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں بنیادی کردارادا کیا۔دسمبر 1984ءہی میں صدرجنرل ضیاءالحق کو ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے مطلع کردیا تھا کہ ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے تمام کولڈ ٹیسٹ کامیاب ہوگئے اور اب اگر حکومت فیصلہ کرلے تو صرف دس دن میں پاکستان باقاعدہ طورپر ایٹمی دھماکے کرسکتا ہے۔جنرل ضیاءالحق پاکستان کی اس کامیابی پر بے حد خوش تھے لیکن وہ فوراً ایٹمی دھماکوں کے حق میں نہیں تھے۔اس موقع پر جنرل ضیاءالحق نے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو زور دے کر کہا کہ منیر احمد خاں تک یہ راز نہیں پہنچناچاہئے کہ اب پاکستان ایٹمی دھماکہ کرنے کی منزل تک پہنچ چکا ہے۔جنرل ضیاءالحق کو خطرہ تھا کہ اگر یہ راز منیر احمد خاں کو معلوم ہوگیا تو فوراً ہی امریکہ کو بھی یہ علم ہوجائے گا اور پاکستان کیلئے متعدد مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ جنرل ضیاءالحق کی اس احتیاط کے باوجود جنرل عارف نے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز جنرل فیاض نقوی سے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی تیار کردہ ڈرائنگز اور ایٹم بم کی تیاری کیلئے مطلوب مراحل کی تمام تفصیلات حاصل کرکے منیر احمد خاں کو منتقل کردی۔ اس عمل میں یہ سازش پوشیدہ تھی کہ منیر احمد خاں ان کامیابیوںکی نقل کرکے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں سے ایٹم بم کے حقیقی معمار ہونے کا اعزاز چھین لے۔ پاکستان کے سابق وفاقی سیکرٹری نیاز اے نائیک کے مطابق ہمارے ایک سابق وزیر خارجہ یعقوب علی خاں امریکہ کے دورہ پرگئے تو انہیں امریکی وزارت خارجہ اور سی آئی اے کے افسروں نے یہ بتا کر حیران کردیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس وقت کس مرحلے میں ہے؟ اس کی تمام تر تفصیلات کا دستاویزی ثبوت ان کے پاس موجود ہے۔
بہرحال پاکستان کے اس دور کے وزیر خارجہ یعقوب علی خاں کو امریکی وزارت خارجہ کے ایک سینئر افسر نے دھمکی دی کہ اب پاکستان سنگین نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہے۔یہ افسوسناک بلکہ شرمناک صورتحال تھی کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے بعض سائنس دان ہی پاکستان کے مفادات کیخلاف کام کر رہے تھے اور وہ ایسی سازشوں میں مصروف تھے کہ پاکستان کبھی بھی ایٹمی طاقت نہ بن سکے۔اللہ کا شکر ہے کہ ہر طرح کی اندرونی اور بیرونی ملک دشمن سازشوں کو شکست سے دوچار کرکے پاکستان بالآخر ایٹمی طاقت بن کر اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں کامیاب ہوگیا۔پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں ہمارے سفارت خانوں نے جو کرداراد اکیا اس کی تفصیلات سابق سفیر پاکستان میاں عبدالوحید نے اپنی خودنوشت میں محفوظ کردی ہیں۔ میاں عبدالوحید نے اپنی کتاب میں ان تمام جھوٹی اور من گھڑت کہانیوں کی بھی تردید کی ہے جن کے مطابق پاکستان نے ایٹم بم بنانے کیلئے مطلوبہ مشینری سمگلروں کے ذریعے غیر قانونی طورپر حاصل کی تھی۔ پاکستان کبھی بھی ایٹمی طاقت بننے کیلئے کسی غیر قانونی سرگرمی کا حصہ نہیں بنا۔کہوٹہ لیبارٹری کیلئے بھی جو سامان خریدا گیا اور پاکستان میں امپورٹ کیا گیا ان سب کیلئے صرف اور صرف قانونی راستہ اختیار کیا گیا تھا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی یہ کامیابی اس اعتبار سے بھی ناقابل فراموش ہے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کیلئے کوئی غیر قانونی ذریعہ استعمال نہیں کیا گیا۔ نیت درست ہوتو اللہ تعالیٰ اسباب مہیا کرنے کے صحیح راستے خود کھول دیتا ہے۔