پرویز رشید کی ”مہمان نوازیاں“

پرویز رشید نے اقوام متحدہ میں بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کی شکایتی سرگرمیوں کے لئے سب سے اچھی بات کی ہے ”من موہن سنگھ تو مہمان ہیں“ وہ یہ بھی کہتے کہ پاکستانی وزیراعظم نوازشریف تو میزبان ہیں۔ وہ من موہن سنگھ کے بھارت کے اتنے دیوانے بلکہ متوالے ہیں کہ بھارت جاتے تو وہاں بھی میزبان ہی ہوتے، مہمان جانے کے لئے آتے ہیں۔ من موہن سنگھ تو دوسری بار بھی آ گئے۔ یہ سونیا گاندھی کی مہربانی ہے یا سشما سوراج اور سورج بلکہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے والے تمام ہندو سیاستدانوں سے بدلہ لینے کی بات کہ ہندوو¿ں نے اپنی روایتی تنگ نظر سے اپنی بہو سونیا کو وزیراعظم نہ بننے دیا وہ وزیراعظم نہ بنیں کانگریس کی صدر بن گئیں، بھارت کا وزیراعظم سونیا نے نامزد کرنا تھا۔زرداری صاحب نے کہا تھا کہ میں سونیا گاندھی بنوں گا مگر وہ صدر بن گئے اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی دونوں وزیراعظم انہوں نے نامزد کئے، دونوں نالائق تھے۔ زرداری نے پاکستانیوں سے کیا بدلہ لیا۔ جو مقام اور عزت سونیا کو ملی ہے اس کا تصور بھی پاکستانی حکمران نہیں کر سکتے۔ وہ حکمرانوں سے بڑھ کر سیاستدان ہیں۔ یہی حالات ہیں تو بھارت میں تیسری بار بھی سونیا ایک سکھ کو ہی وزیراعظم بنا سکتی ہے کیونکہ ہندو سیاستدان یہ جرا¿ت نہ کرتا، سکھ اور مسلمان بھارت کے صدر تو بن سکتے ہیں وزیراعظم نہیں۔ بھارت کی غیر ہندو بہو بنا سکتی ہے نوازشریف بھی تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں۔
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
من موہن بھارت کے دیوانے نوازشریف بھی بھارت کے دیوانے؟
سونیا نے ہندو سیاستدانوں کو شکست دے دی۔ دلی میں انہی ہندوو¿ں نے سکھوں کا قتل عام کیا تھا، اس کا بدلہ یہ ہے کہ اب ایک سکھ اُن کا وزیراعظم ہے۔ ویل ڈن سونیا گاندھی عورت جس گھر میں شادی کے بعد جاتی ہے وہی اس کا گھر ہوتا ہے جنازہ بھی اس کا وہاں سے نکلتا ہے بیٹی اور بہو میں فرق نہیں ہوتا مگر ہندو ذہنیت کا تعصب اور انتقامی فطرت کے کرتوت دیکھیں’
ایک بات پرویز رشید کو بتا دوں وہ دوست ہے اور دوست حکمران ہو تو بھی دوستانہ تنقید کو برداشت نہیں کرتا۔ میں اپنے فرض کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا مگر میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کی پوری کابینہ میں ایک بھی وزیر پرویز رشید جیسا نہیں ہے۔ وہ اپنی مصلحتوں کے باوجود ایک ”غنیمت حکمران“ ہے وہ ایک دفعہ میرے کسی پروگرام میں اپنی سوزوکی کار خود ڈرائیو کرتا ہوا آیا تھا نہ پروٹوکول نہ سیکورٹی وہ تب بھی حکومت پنجاب کا مشیر تھا۔
میں اسے بتانا چاہتا ہوں کہ ہندو وزیراعظم ہے ایک سکھ وزیراعظم پاکستان کے حق میں کبھی اچھا نہیں ہوگا۔ اسے یہ کمپلیکس رہے گا کہ کہیں ہندو ناراض نہ ہو جائیں یہی حال صدر ابامہ کا ہے کہ کہیں گورے ناراض نہ ہو جائیں۔ مسلمان بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کا بھی یہی حال ہے اس نے پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے لئے ہرزہ سرائی کی کہ وہ پاکستان بھارت میں مذاکرات نہیں ہونے دیتے جس کا جواب وزیر داخلہ چودھری نثار نے دیا کہ وہ اپنا پاکستان مخالف منجن بیچنے کی کوشش نہ کریں۔ حکومت اور فوج کی پالیسی بھارت کے لئے ایک ہے ۔ اقوام متحدہ میں نوازشریف کی تقریر سے تو یہی ثابت ہوتا ہے۔ واہگہ بارڈر سے بس میں لاہور آ کے نوازشریف سے ایک ہندو وزیراعظم ملا تھا ۔
مجھے تو لگتا ہے کہ من موہن سنگھ مستقل مہمان وزیراعظم ہے کچھ مہمان جہاں جاتے ہیں مہمان خصوصی بن بیٹھتے ہیں۔ من موہن سنگھ پاکستان میں تو مہمان عزیز ہوں گے کسی کے گھر کوئی ایسا ہی مہمان چلا گیا گھر والے بہت خوش ہوئے مگر جب اس کا قیام و طعام کچھ لمبا ہوگیا تو میزبان بڑے پریشان ہوئے ایک دن اس کے قدموں میں بیٹھ گئے ۔ آپ پھر ہمارے گھر نہیں آئیں گے۔ مہمان نے کہاکہ یہ میرا اپنا گھر ہے میں یہاں کیوں نہیں آو¿ں گا تو میزبان میاں بیوی بیک زبان بولے کہ آپ جائیں گے تو پھر آئیں گے بھارت میں جو بھی آیا وہ پاکستان دشمن ہوگا۔
مجھے لگتا ہے کہ پرویز رشید نے اپنی بات بچا لی ہے بلکہ مکمل کر لی ہے دوسرے بیان میں انہوں نے من موہن سنگھ کی تعریف کی ہے۔ ”من موہن سنگھ نے نوازشریف کا دل موہ لیا ہے“ مجھے تو من موہن سنگھ کی طرف سے ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ انہوں نے ملاقات کا شیڈول ہی بدل دیا پہلے وہ ملاقات میں مہمان تھے انہیں نوازشریف کے ہوٹل میں جانا تھا۔ پھر شاید انہوں نے پرویز رشید کی بات سن لی ہوگی کہ میزبان بن گئے۔ ایک خبر کے مطابق نوازشریف دو منٹ پہلے ملاقات کے لئے پہنچ گئے اتنی بے قراری محبوب سے ملنے کی بھی نہیں ہوتی۔ وہاں سیکورٹی نے وزیراعظم پاکستان کو روک لیا میرے خیال کے مطابق نوازشریف کو اس توہین کے بعد واپس آ جانا چاہیے تھا ۔ میرا خیال یہ بھی ہے کہ اقوام متحدہ میں من موہن سنگھ کی ڈری ہوئی تقریر اور نوازشریف کی خوش کر دینے والی تقریر کے بعد ملاقات کی نہ ضرورت رہ گئی تھی نہ فائدہ۔؟
نوازشریف یہ کر گزرتے تو پاکستانی ان کا والہانہ استقبال اسحاق ڈار کے مہنگائی حملے کے باوجود کرتے مگر ہمارے حکمرانوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمیں کس موقع پر کیا کرنا چاہیے۔ وقتی مصلحتیں اور مجبوریاں انہیں کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرنے دیتیں۔ کیا یہ ممکن تھا کہ پرویز رشید وہاں ہوتے تو وہ نوازشریف کو روک لیتے۔ نوازشریف کو وزارت عظمٰی ”بچانے“ کی فکر ہے تو پرویز رشید کو وزارت اطلاعات بچانے کی فکر کیوں نہ ہو؟
من موہن سنگھ کے لئے ”مہمان“ کا لفظ کچھ منفی سا تھا اسی لئے پرویز رشید نے من موہن کی رعایت سے نوازشریف کا دل موہ لینے کی بات کر دی ہے۔ موہن میں موہ موجود ہے اور ”ن“ ن لیگ والا۔ یہ ہیں پرویز رشید کی مہمان نوازیاں۔ نوازنے کی کوئی ادا ہو تو نوازشریف یاد آتے ہیں۔
پرویز رشید نے یہ بھی کہا تھا کہ اہم فیصلے کے لئے بات اگلی بھارتی حکومت سے ہوگی ۔ اگلی حکومت کے لئے بھی سونیا من موہن سنگھ کا انتخاب کرے گی اور اگر بی جے پی والے آ گئے تو ان کے نامزد وزیراعظم نریندر مودی کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف نے صدر ابامہ سے شکایت کرنے والے من موہن سنگھ کی شکایتی بڑھیا کہہ کر بھارت کی توہین کی ہے۔ نوازشریف کے قریبی لوگوں نے اس کی تردید کر دی ہے ۔ کسی نے یہ نہیں کہہ دیا کہ نوازشریف کی مراد اس بڑھیا سے ہے جو چاند میں چرخا کات رہی ہے۔
نئی بھارتی حکومت واقعی پاکستان کے لئے اہم ”فیصلے“ کرے گی؟ اہم فیصلے نئی پاکستانی حکومت نے خود کر دیئے ہیں بڑا فیصلہ اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنانے کا ہے باقی فیصلے ڈار صاحب خود بلکہ خودبخود کر رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ بھارت کو امریکہ کا سہارا لینا پڑا ہے یہ پاکستان کی کامیابی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...