جنرل اسمبلی کا حالیہ اجلاس اس لئے اہمیت اختیار کر گیا تھا کہ اس میں ہمارے وزیراعظم کی من کی مراد پوری ہونے والی تھی۔بھارت کے وزیراعظم منموہن سنگھ اور ہمارے منموہنے وزیر اعظم کی ملاقات پر ساری دنیا کی نظریں مرکوز تھیں۔
جو مسئلہ جنرل اسمبلی میں گرما گرمی پیدا کرسکتا تھا، وہ امریکہ کا شام پر ممکنہ حملہ تھا مگر روسی صدر پوتن نے اسے آﺅٹ آف دی باکس حل کر دیا، نائن الیون کی برسی پر اس کاایک کالم نیو یارک ٹائمزمیں چھپا اور اوبامہ صاحب کی ہو اسرک گئی۔
ایرانی صدرحسن روحانی نئے نئے منتخب ہوئے تھے، جنرل اسمبلی ان کے لئے بھی چشم براہ تھی اور امریکی صدر اوبامہ کے دل میں ان کے لئے اچانک محبت جاگ اٹھی۔انہوں نے فرط جذبات میں ایک فون حسن روحانی کو داغ دیا جس کے اختتام پر روحانی کے منہ سے خدا حافظ کا لفظ نکلا،عالمی میڈیا میں جھٹ یہ بحث شروع ہو گئی کہ لفظ خدا حافظ کا استعمال درست ہے یا اس کی جگہ اللہ حافظ کہنا چاہئے تھا، ہمارے ایک دوست شعیب بن عزیز جو وزیر اعلی پنجاب کی شین قاف درست کرنے پر مامور ہیں ، کئی برسوں سے مجھ پر زور دے رہے ہیں کہ الوداع کرتے وقت کسی کو خدا حافظ نہ کہو ،اللہ حافظ کہو۔
حسن روحانی صاحب اوبامہ اور امریکہ کو خدا حافظ کہہ کر واپس تہران اترے تو دو طرح کا ہجوم ان کے استقبال کے لئے جمع تھا ، ایک تو وہ تھے جو ان کی ستائش میں نعرے لگا رہے تھے، ان کاخیال تھا کہ روحانی صاحب نے امریکہ سے تصادم کا خطرہ ختم کر دیا ہے اور ایک ہجوم ایسا تھا جو مرگ بر امریکہ کے نعرے لگا رہا تھا اور ہر صورت میں امریکہ کا گریبان چاک کرنے کے موقف پر قائم ہے، اس ہجوم نے اپنے صدر پر جوتی بھی پھینکی جسے عالمی میڈیا نے بار بار دکھایا۔
اگر عالمی میڈیاجس میں پاکستانی میڈیا بھی شامل ہے، نے کسی منظر کا بائیکاٹ کیا تو وہ تھا جنرل اسمبلی کے باہر کشمیری حریت پسندوں کا احتجاجی مظاہرہ۔ہمارے قصیدہ نگاروں نے شریف ، سنگھ مصافحہ کی جھلکیاں ابھی تک دکھانا بند نہیں کیں لیکن اگر ان کے کیمروں سے کوئی حقیقت اوجھل رہی ہے تو وہ ہے مظلوم کشمیریوںکی صدائے احتجاج جسے ہمارے اینکروںنے پر کاہ کے برابر اہمیت نہیں دی۔
شریف ،سنگھ ملاقات کو ناکام بنانے میں کئی عوامل کا عمل دخل ہے۔ایک تو جموں کے فوجی کیمپ میں بارہ افراد مارے گئے، دوسرے پشاور میں لگاتار خود کش حملے ہوئے، تیسرے کچھ لگائی بجھائی من موہن سنگھ نے خود کی اور کچھ اس میں مرچ مصالحہ ہمارے ایک مڈل ایج اینکر نے یہ کہہ کر ڈالا کہ نواز شریف نے ان کے ساتھ ایک نجی ملاقات میں بھارتی وزیر اعظم کو گنوار عورت کہہ دیا ہے۔اس پر بھارت میں ایک طوفان مچ گیا۔ حزب مخالف بی جے پی کے نریندر مودی نے اس کے چسکے لئے۔مگر من موہن کی پوزیشن کو سب سے زیادہ خراب راہول گاندھی نے کیا۔ہوا یہ کہ من موہن نے روانگی سے قبل ایک ایسا آ ٓرڈی ننس اپنے صدر کی منظوری کے لئے بھجوایا جس کی رو سے عدالت کسی رکن پارلیمنٹ کو سزا سنا دے تو ایسے میں نیتا کی رکنیت ختم نہ ہو۔ یہ آرڈی ننس سراسر عدلیہ کا منہ چڑانے کے مترادف تھا اور راہول گاندھی نے اسے بجا طور پر بکواس کہا اور ردی کی ٹوکری کے قابل سمجھا۔مگر بھارت میں اس پر ایک طوفان کھڑا ہو گیا اور یہ شور مچا کہ نہرو خاندان کے شہزادے کو ایک منتخب وزیر اعظم کی مٹی پلید کرنے کی اجازت کس نے دی۔نیویارک سے واپسی پر طیارے میں میڈیا نے من موہن سے پوچھا کہ کیا آپ احتجاج میں مستعفی ہورہے ہیں تو انہوںنے ایسے کسی بھی امکان کو رد کردیا۔ ظاہر ہے من موہن پرانی تنخواہ پر گزارہ کرنے والے وزیر اعظم ہیں۔یہ ایک بہترین موقع تھا کہ من موہن مستعفی ہو کر تاریخ کے صفحات پر اپنا نام سنہری حروف میں لکھو الیتے لیکن غلامانہ ذہنیت کامظاہرہ کرنے پر اب تاریخ کے کسی حاشیے میں ہی ان کا ذکر ملے گا۔بھارتی میڈیااس امکان کا اظہار کر رہا ہے کہ بدھ کے روز ملک میں عام تعطیل کے باوجود اعلی سطحی میٹنگوں کے بعد متنازعہ آرڈی ننس واپس لے لیا جائے گا جس پر ابھی تک بھارتی صدر پرناب مکر جی نے دستخط نہیں کئے۔
نواز شریف کے ساتھ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر جو کچھ ہوا، اس پر ان کا کوئی کٹر حریف بھی شادیانے نہیں بجا سکتا،من موہن کا جنرل اسمبلی کے بھرے اجلاس میں کہنا کہ پاکستان دہشت گردی کا منبع ہے، اسے اپنی یہ فیکٹری بند کر دینی چاہئے، پاکستان کے لئے سخت رسوائی کا باعث تھا۔بھارتی وزیر خارجہ نے رہی سہی کسر یہ کہہ کر پوری کر دی کہ پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے وزیر اعظم ترکی بہ ترکی جواب دے سکتے تھے مگر ان کے دل میں محبت کے جذبات موجزن تھے، انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ ماحول کو مزید خراب نہ کیا جائے، مگر ہر پاکستانی کی خواہش تھی کہ وزیر اعظم زلزلے اور دہشت گردی سے ہلاکتوں کا بہانہ بنا کر قبل از وقت رخت سفر باندھ لیتے اور من موہن سے مزید عزت افزائی کروانے کے لئے وہاں نہ رکے رہتے۔مگر وہ صحیح فیصلہ، صحیح وقت پر نہ کر سکے، اس سے وزیر اعظم کا نہیں ، پاکستان کا سر جھکا۔
میاں نواز شریف کوواپسی پر اسلام آباد کامنظر بدلا بدلاسا ملا ہے، عدلیہ نے حکومت کی طرف سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر شدید برہمی کااظہار کیا ہے، عوام تپے ہوئے ہیں۔ وہ بجلی مانگ رہے تھے، اس میں ایک میگا واٹ کا بھی ا ضافہ نہیں ہوا، اب تک صرف رام کہانیوں پر ٹرخایا جا رہا ہے اور اب ناگہانی طور پر نہیں ، آئی ایم ایف سے طے شدہ ایجنڈے کے تحت اکتوبر سے بجلی کے بلوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیا گیا ہے،تجارتی اور صنعتی ٹیرف پہلے ہی بڑھایا جا چکا ہے۔ملکی زندگی کا یہ ایک اہم موڑ ہے، عوام کے مفاد کا تحفظ کون کرے گا ، مک مکا والا نظام ہر گز عوام کی فلاح نہیں چاہتا، نیا کھلاڑی عمران خان ہے جسے اپنی ترجیحات کا علم بھی نہیں، وہ سیاست کی ابجد سے بھی آگا ہ نہیں اور روسی صدر ولادی میرپوتن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کالم نگاری کے ذریعے فیصلے تھوپنا چاہتا ہے۔عمران خاں بھول گئے ہیںکہ پوتن کے پیچھے تو سووئت ایمپائر کی طاقت وحشمت ہے اور بے چارے خان صاحب، خون ، راکھ اور ملبے کے ڈھیر پر تحت حکومت سجائے بیٹھے ہیں۔
صدر اوبامہ کا حال مت پوچھیں، ان کی کا نگرس نے ان کو ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔بجٹ کی نا منطوری سے لاکھوں لوگوں کا روزگار خطرے میں ہے، پبلک پارکس اور عمارات پر تالے پڑے ہیں۔ ان کے ارکان کانگرس نے ذرا بھی لحاظ نہیں کیا کہ انہوںنے حکومت کا ناطقہ بند کرنے کئے کونسا نادرموقع چنا ہے۔
جنرل اسمبلی کا یہ اجلاس کئی حکمرانوں کے لئے منحوس ثابت ہوا ہے۔کہاں اسمبلی کی لش پش اور کہاں جوتے،استعفوں کا دھڑکاا ور حکومتی شٹ ڈاﺅن، عوام پر بجلی بم۔خدا ایسے دن دشمن کو بھی نہ دکھائے۔