اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + دی نیشن رپورٹ + نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف سے کہا ہے کہ بجائے اس کے کہ عدالت کوئی عدالتی حکم جاری کرے حکومت خود بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن واپس لے لے۔ اس موقع پر وفاقی حکومت کی جانب سے خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ حکومت گھریلو اور زرعی صارفین کے لئے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔ چیف جسٹس نے خواجہ آصف سے قیمتوں میں اضافے کے 30 ستمبر کے نوٹیفکیشن کے جواز کے حوالے سے بھی سوال کیا۔ سپریم کورٹ نے نوٹیفکیشن واپس لینے کے لئے کل تک مہلت دی ہے۔ سپریم کورٹ نے لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے حکومت کو کل (جمعہ) تک بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ پر نظرثانی کے حوالے سے تحریری بیان داخل کرانے کا حکم دیا۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے عدالت سے معاملے پر مہلت کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے پر نظرثانی کے لئے تیار ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ نوٹیفکیشن واپس لے لیں، عدالت مداخلت کرے گی تو اچھا نہیں لگے گا، حکومت اگر آئین و قانون کے تحت کام کرے تو عدالتوں کو مداخلت کی ضرورت نہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کنڈے لگانے والے بجلی چوروں کا خمیازہ بل ادا کرنے والے صارفین بھگت رہے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کراچی میں کے ای ایس سی کے بغیر کوئی بجلی کی ترسیل نہیں کر سکتا۔ عوام کے پاس آپشن ہی نہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی تو وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف عدالت میں پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے بتایا کہ حکومت کے پاس نیپرا کا فیصلہ ہے جس میں نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لئے کہا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین نیپرا کا کہنا ہے کہ انہوں نے تو قیمتوں میں کمی کی سفارش کی ہے، نیپرا حکام نے تو نوٹیفکیشن سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے، 30 ستمبر کا نوٹیفکیشن نیپرا نے جاری نہیں کیا، خود اندازہ کریں ایسے نوٹیفکیشن کی کیا قانونی حیثیت رہ جاتی ہے؟ حکومت اگر نوٹیفکیشن واپس نہیں لیتی تو عدالت اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے قانونی حکم جاری کرے گی۔ حکومت کے پاس چار سو اکتالیس ارب روپے وصول کرنے کا طریقہ کار ہے ہی نہیں اور عذاب عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت پر تنقید کی جاتی ہے کہ عدالت قیمتوں کا تعین نہیں کر سکتی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیپرا نے شیڈول ون کی منظوری دی تھی اگر 15 اگست کا (ٹیرف کی تبدیلی کا) نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا تو یہ نیوکلیئر بم کے مترادف ہوتا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نیوکلیئر بم اگر عوام پر گرانا ہے تو گرا دیں، عدالت مداخلت نہیں کرے گی، وہ صرف قانون کو دیکھے گی۔ چیئرمین نیپرا کے مطابق 4700 میگاواٹ بجلی گیس سے بن سکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ گیس کی چوری روکنے کے لئے کہا لیکن شاید تاثر یہ لیا جا رہا ہے کہ عدالت حد سے تجاوز کر رہی ہے، دستاویزات دیں، عدالت اپنے اختیار میں رہتے ہوئے قانونی حکم جاری کرے گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سے گردشی قرضہ مزید بڑھے گا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے لیکن ہمارے ہاں اضافہ کیا گیا ہے۔ کنڈے لگانے والے بجلی چوروں کا خمیازہ بل ادا کرنے والے صارفین بھگت رہے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کراچی میں کے ای ایس ای کے بغیر کوئی بجلی کی ترسیل نہیں کر سکتا۔ عوام کے پاس آپشن ہی نہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ آئیسکو کی ریکوری 94 فیصد ہے لیکن ایک ایسی کمپنی بھی ہے جس کی چوری 60 فیصد ہے۔ چیئرمین نیپرا خواجہ نعیم نے کہا کہ 30 ستمبر کے نوٹیفکیشن کی اپیل نیپرا کو نہیں بھیجی گئی تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 15 اگست اور 30 ستمبر کے نوٹیفکیشن میں ٹیرف ایک جیسا نہیں ہے۔ حکومتی نوٹیفکیشن میں ٹیرف ریٹ کم ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بازار میں کوئی چیز 60 کی دوسرے میں 90 کی ہو، یہ کیسے ممکن ہے۔ نیپرا کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ریونیو اکٹھا نہ کرنے والی کمپنیوں کو انتباہ جاری کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اچھے برے لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ چند لوگوں کی وجہ سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ ذمہ داروں کا تعین اور کنڈے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے عدالت کو بتایا کہ 101 فیڈر ایسے ہیں جن میں تین فیصد اور زیادہ سے زیادہ 20 فیصد تک بلوں کی وصولی ہوتی ہے۔ 80 سے 97 فیصد تک بجلی چوری ہو جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عوام کی اکثریت ایماندا ہے جو لائنوں میں کھڑے ہو کر بل جمع کرواتے ہیں۔ وفاقی حکومت تعاون کرے تو بجلی چوری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پیسے دو بجلی لو کا فارمولا ہونا چاہئے۔ کراچی میں وفاقی حکومت نے مدد کی تو وہاں بہتری آنا شروع ہو گئی ہے۔ شاید وفاقی حکومت کو بلوچستان میں بھی مدد کرنا پڑے۔ آپ آرٹیکل 148 کی ذمہ داری جانتے ہیں لہٰذا اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں کی مدد کریں۔ چیف جسٹس نے جب خواجہ آصف سے نوٹیفکیشن واپس لینے کا کہا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس پر نظرثانی کے لئے تیار ہیں۔ اس پر عدالت نے انہیں جمعہ تک بجلی قیمتوں میں اضافے کے نوٹیفکیشن پر نظرثانی سے متعلق حکومتی جواب داخل کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔ نجی ٹی وی او ر ایجنسیوں کے مطابق سپریم کورٹ نے بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے نوٹیفکیشن پر نظرثانی کے لئے حکومت کو کل (جمعہ) تک مہلت دے دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر نظرثانی کرے اور نوٹیفکیشن واپس لے، ہمیں مداخلت پر مجبور نہ کرے، عدالت مداخلت کرے گی تو اچھا نہیں لگے گا۔ حکومت کو عوام پر ظلم نہیں کرنے دیں گے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن نیپرا نے جاری نہیں کیا، نیپرا نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کیلئے بھی نہیں کہا جس سے اس نوٹیفکیشن کی کوئی حیثیت نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے نیپرا سے نرخ بڑھانے کی سفارش کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ بھی آگئے آپ وزارت چھوڑیں وکالت کریں۔ چیف جسٹس نے وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کو مشورہ دیا کہ آپ خود بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن خود واپس لے لیں، ہمیں مداخلت پر مجبور نہ کریں، خواجہ آصف نے کہا میں عدالت کو صرف ایک مثال دینا چاہتا ہوں پیپکو میں 101 فیڈرز ایسے ہیں جہاں صرف 3 فیصد لوگ بل دیتے ہیں، پیپکو میں 57 سے 80 فیصد تک نادہندہ ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وفاق مےں ہیں آپ کو چاہئے کہ صوبائی حکومت کی مدد کریں، نادہندہ لوگوں کا بوجھ پورے پاکستان پر نہ ڈالیں۔ آپ ایسے لوگوں کو بجلی کیوں دیتے ہیں جو بل ادا نہیں کرتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت میں عوام کی حکومت عوام کیلئے ہوتی ہے۔ عوام کی اکثریت ایماندار ہے، لائنوں میں لگ کر بل جمع کراتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے مطابق کام کرینگے تو عدالت مداخلت نہیں کریگی۔ چیف جسٹس نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے خلاف ریمارکس میں کہا کہ کنڈا ڈالنے والوں کا بوجھ صارفین پر نہ ڈالا جائے، حکومت بجلی کے نرخ بڑھانے کی بجائے بجلی چوروں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ غریب عوام پر سارا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں کے تعین کا اختیار نیپرا کے پاس ہے۔ چیئرمین نیپرا نے قیمتوں میں کمی کی سفارش کی تھی۔ انہوں نے اضافے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔ حالیہ اضافے پر نیپرا نے لاعلمی ظاہر کی ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے نرخوں کا تعین الگ الگ کیا جاتا ہے۔ نیپرا کے احکامات پر عمل کریں تو بجلی 14 روپے فی یونٹ ملنی چاہئے۔ حکومت اس سے کم لے رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہیں پر 14 روپے فی یونٹ سے بھی زیادہ وصول کیا جا رہا ہے۔ فرٹیلائزر کو گیس سبسڈی پر دی جاتی ہے تو کسانوں کو کھاد بھی سستے داموں ملنی چاہئے۔ چیف جسٹس نے وفاقی وزیر خواجہ آصف سے کہا چیئرمین نیب کی تقرری نہیں ہو رہی، بہت سے اہم کیسز زیر التوا ہیں جس پر خواجہ آصف نے کہا کہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی ملاقات میں کچھ نہ کچھ ضرور طے پا جائے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ حکومت نظرثانی پر بسم اللہ کرے، اگر قانون اور آئین پر عمل ہو گا تو عدالت مداخلت نہیں کرے گی۔
اسلام آباد (نمائدہ نوائے وقت) وفاقی وزیر بجلی و پانی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمہ کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں دے سکتے، حکومت نے بجلی مہنگی نہیں کی بلکہ سبسڈی میں کمی کی ہے، بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے نوٹیفکیشن سے متعلق جواب جمعہ کو سپریم کورٹ میں جمع کرایا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے نوٹیفکیشن کی قانونی حیثیت سے متعلق نیپرا اور حکومت مل کر جواب دیں گی جس میں نوٹیفکیشن کے اجرا سے متعلق قانونی ابہام دور کریں گے۔ عدالت نے صرف قانونی نکات سے متعلق نظرثانی کے لئے کہا ہے۔ نیپرا کا دیا گیا ٹیرف حالیہ اضافے سے زیادہ ہے۔ ٹیرف میں اضافے کو پچاس کے بجائے دو سو یونٹ سے نافذ کیا ہے۔ تمام صوبوں میں ایسے فیڈرز ہیں جہاں بجلی چوری کی جاتی ہے۔ خیبر پی کے کے ایک سو ایک فیڈرز میں نوے فیصد تک بجلی چوری ہوتی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ جو صارفین بل نہیں دیتے انہیں بجلی فراہم نہیں کی جانی چاہئے۔ حکومت کے اقدامات کے باعث گذشتہ دو ماہ میں بجلی چوری میں کمی ہوئی۔ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ حکومت نے بجلی کی قیمتوں پر نہیں نوٹیفکیشن کی قانونی حیثیت پر نظرثانی کی بات کی ہے۔ بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے نیپرا کا تقسیم کار کمپنیوں کو دیا گیا ٹیرف حکومت کی جاری قیمتوں سے بھی زیادہ ہے۔