صدارتی فارمولا

ہم زندگی کے بیشتر شعبہ جات میں امریکہ کی تقلید باعث فخروافتخار سمجھتے ہیں ۔ترقی کے میدان میں امریکہ کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے تو ہم نظام حکمرانی بھی امریکہ سے مستعار کیوں نہیں لے لیتے اور اس میں قباحت بھی کیا ہے؟ اڑسٹھ برس سے ہم آمریت اور جمہوریت کے تجربات سے گزر رہے ہیں۔ دونوں کے مضمرات کھل کر سامنے آ چکے ہیں اور اب جب کہ ہر طرف تبدیلی کا نعرہ بلند ہو رہا ہے تو آزمائے کو آزمانے کی بجائے کیوں نہ نیا تجربہ کیا جائے۔ یہاں صدارتی نظام کی خوبیوں کا جائزہ لینے کی چنداں ضرورت نہیں کہ یہ اگر امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک بلکہ سپر پاور کا نظام حکمرانی بطریق احسن چلا رہا ہے تو ہمارے لئے یہ نظام موزوں کیوں نہیں ہو سکتا۔ البتہ جمہوریت سے ہم نے اب تک کیا کھویا کیا پایا اس کا جائزہ بہرحال لیا جا سکتا ہے۔ نظاموں سے بالاتر اولین بات تو یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی ان گنت تعداد نے وطن عزیز میں لیڈروں کی منڈی لگا دی ہے۔ کسی کی تیس برس قبل اگر پارلیمان میں ایک سیٹ تھی تو وہ اب تک لیڈر چلا آ رہا ہے اور اگر اس وقت ایک نشست ہے تو بھی وہ مہمان لیڈر کے طور پر مانا جاتا ہے۔ ویسے ہمارے ہاں لیڈر بننے کیلئے ایک نشست کا ہونا بھی کوئی ضروری نہیں۔ بس دوچار لوگ ہوں نعرے لگانے کیلئے تو بھی بہت ہے۔ ویسے عوام نہ بھی ہوں پھر بھی ہمارے ہاں لیڈر بننے کی سہولت موجود ہے۔ بس صبح و شام ٹی وی مذاکروں میں جلوہ دکھائیں اور سنسنی خیز گفتگو سے لیڈر بن جائیں۔ مصیبت یہ ہے کہ وزارت عظمی کی کرسی فقط ایک ہے اور وزراء کی کرسیاں بھی کافی زیادہ ہونے کے باوجود محدود ہیں اور لیڈروں کی تعداد بے شمارہے۔ لہٰذا تمام کو بیک وقت موقع فراہم کرنا یعنی اقتدار عطا کرنا ممکن نہیں۔ البتہ جن خوش نصیبوں کو کسی طور یہ نعمت میسر آ جاتی ہے وہ تو ’’مصروف‘‘ ہو جاتے ہیں اور جو فارغ ہوتے ہیں وہ بھی مصروف ہوتے ہیں۔ مگر کرسی چھیننے میں!
دو ہمسائے چھوٹے موٹے لین دین پر اکثر جھگڑتے رہتے تھے۔ شہنشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے ایک کو بلایا اور پوچھا بتائو تمہیں کیا چاہئے؟ اس نے دل کھول کر جو مانگا بادشاہ نے عطا کر دیا اور وہ خوشی خوشی واپس چلا گیا۔ کچھ عرصہ بعد دوسرے کو بلایا اور پوچھا بتائو اب تمہیں کیا چاہئے؟ اس نے جواب دیا سرکار! مجھے کچھ نہ دیں بس جو کچھ آپ نے میرے ہمسائے کو دیا ہے وہ واپس لے لیں…! موجودہ جمہوری نظام میں لیڈروں کی بہتات نے بھی کچھ اسی طرز کا حسد پر مبنی چھینا جھپٹی کا نظام وضع کر لیا ہے جو اب سدھرتا دکھائی نہیں دیتا۔
اس سلسلے کا واحد حل دو جماعتی (TWO PARTY SYSTEM) ہے پورے ملک میں صرف دو ہی جماعتیں الیکشن کمیشن کے ہاں رجسٹرڈ ہوں اور وہی اپنے لیڈر کھڑے کرنے کی مجاز ہوں۔ یہ دو پارٹیاں مثال کے طور پر پاکستان مسلم لیگ (کسی ن، م، ل، ق کے بغیر) اور پاکستان پبلک پارٹی وغیرہ ہو سکتی ہیں اور دائیں اور بائیں بازو کی نمائندگی کرتے ہوئے دونوں پارٹیوں میں ہم خیال جماعتیں ضم ہو کر بڑا اتحاد قائم کر سکتی ہیں۔ موجودہ جاگیردارانہ اور خود غرضی پر مشتمل رویوں کی موجودگی میں ایسا مشکل دکھائی دیتا ہے تاہم یہ کام قربانی کا متقاضی ہے اگر اس وقت سیاست دانوں نے قربانی نہ دی تو ’’قربان‘‘ ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں بچے گی۔
اگر وطن عزیز کا ڈیمو گرافک جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ انہی لیڈروں نے پوری قوم کو مذہبی، لسانی، فرقہ وارانہ اور سیاسی وسماجی گروہوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ اب ایسا زمانہ نہیں کہ ایک ہادی برحق اٹھے اور پوری قوم کو ایک لڑی میں پرو دے ۔اب تو کوئی ایسی ہی تدبیر اختیار کرنا پڑے گی کہ اختلافات میں مماثلت کی گنجائش نکالی جائے اور چھوٹے چھوٹے گروہوں کو بڑے گروپ کی چھتری تلے لا کر ملک و قوم کی حقیقی خدمت میں مصروف کیا جائے۔ اس وقت اگر تمام لیڈروں کی حیثیت وکیفیت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ نوے فیصد لیڈر دراصل مقامی سطح کے ہیں مگر مقامی سطح پر انہیں اپنا حصہ نہ ملنے کے باعث وہ قومی سطح پر در آئے ہیں۔ اگر ان کیلئے مقامی حکومتوں یعنی بلدیاتی نظام کو بحال کر دیا جائے تو قوی امکان ہے کہ یہ لیڈران اپنے اپنے مقام پر لوٹ جائینگے۔ فائدہ یہ ہو گا کہ ایک تو یہ لوگ مقامی سطح پر فلاحی کاموں میں جُت جائینگے۔ دوسرا یہ کہ قومی سطح پر جو لیڈروں کی بہتات ہے وہ ختم ہو جائیگی۔
بلدیاتی نظام کی بحالی کیساتھ ساتھ مرکز میں صدارتی نظام کو رائج کر دیا جائے۔ دو جماعتی نظام کے تحت صدارتی امیدواروں کا چنائو اور معیار کسی بھی ترقی یافتہ ملک مثلاً امریکہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ البتہ ایک صدر کا عرصہ اقتدار زیادہ سے زیادہ چھ برس اور کم سے کم دو برس ہونا چاہئے۔ ہر دو برس بعد ملک میں صدارتی انتخابات ہوں۔ پرانے صدر ہی کو عوام دوبارہ منتخب کر سکتے ہیں یا نیا صدر چن سکتے ہیں۔ اگر ایک شخص (صدر) عوام کیلئے بہتر کام کریگا تو عوام اسے دوبارہ بھی موقع فراہم کر سکتے ہیں اور مزید بہتر کارکردگی پر تیسری مرتبہ بھی موقع مل سکتا ہے۔ یوں زیادہ سے زیادہ چھ برس بعد ایک صدر کو باعزت طور پر رخصت کیا جائے اور اس کیلئے دوبارہ سیاست میں حصہ لینے پر پابندی ہو۔ بیس برس تک ہر دو برس بعد انتخابات کے بعد جب قوم سیاسی طور پر بالیدگی اختیار کر لے تو دورانیہ چار چار برس تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ بہرحامل فی الوقت اقتدار کے ایوانوں سے کرپشن اور کھینچا تانی کے خاتمے کا واحد حل کم وقفے سے انتخابات کا انعقاد ہے۔ ایک بار ہارنے والے صدارتی امیدوار کو دوبارہ کبھی بھی برائے امیدوار نہ چنا جائے اور تین بار کامیاب قرار پانے والے خوش نصیب صدر کو تمام تر خوبیوں کے باوجود چھ برس بعد پھر کبھی اقتدار کے ایوانوں کا رخ نہ کرنے دیا جائے۔ یوں ایک سرکل کے ذریعے تجربہ کار سیاست دانوں کو باری باری مواقع بھی میسر آتے رہیں گے اور نئی قیادت بھی جنم لیتی رہے گی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس تجویز کو فارمولا سمجھتے ہوئے عمل میں لایا جائے تو طوفان میں پھنسی سیاسی کشتی کو کنارے لگایا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...