وقت کی ضرورت

ملک کے ’’دگرگوں‘‘ حالات کے پیش نظر یہ ’’وقت‘‘ کی ضرورت تھی یا ’’حالات‘‘ کا جبر کہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں نواز شریف کی تقریر کو بہر صورت متاثر کن ہونا ہی تھا اور انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بظاہر جرأت مندانہ رویے کا اظہار کیا بھی لیکن لگتا ہے کہ ملک میں وہ عوامی پذیرائی سے تاحال خاصے دور میں۔ شاید اب دیر ہوچکی ہے، اور ویسے بھی غیر جانب دار حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نواز شریف کا مذکورہ ’’دوٹوک‘‘ موقف ان کا اپنا اختیار کردہ نہیں بلکہ کسی دبائو کا نتیجہ ہے۔ لہذا ان کا یہ اقدام ’’بعدازوقت‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا ماننے اور جاننے والے مان اور جان چکے ہیں کہ اب ’’معاملات‘‘ اپنے منطقی انجام کرطرف بڑھ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ جب کوئی بات یا نعرہ زبان زد عام ہوجائے تو مانیئے اور جانیئے کہ یہ معاشرے کے اجتماعی شعور اور عوامی خواہشات کا عین پر تو ہے۔ طاہرالقادری نے خوابیدہ عوامی شعور کو جھنجھوڑا اور عمران خان نے بے زبان لوگوں کو زبان دی تو ایک عوامی ’’سلوگن‘‘ زبان پر آگیا اور اسی سلوگن نے تھکے ماندے احتجاج اور نڈھال دھرنوں میں ایک مرتبہ پھر جان ڈال دی ہے لگتا ہے کہ ’’کچھ نہ کچھ‘‘ تو ضرور ہوکر رہے گا۔ مکمل انداز میں نہ سہی تاہم محدود سطح پر ضرور اس انقلاب اور تبدیلی کی جھلک کو مستقبل میں دیکھا جاسکے گا۔ سیاسی شعور کے حوالے سے قبل ازیں یہی کرشمہ بھٹو مرحوم اور الطاف حسین بھی دکھا چکے ہیں۔ بہر حال اس مسلسل احتجاج اور ان مستقل دھرنوں کی استقامت اور ریاضت نے پوری قوم کو اس مسئلے میں داخل کرلیا ہے اور اب قوم میں یہ خواہش راسخ ہوچکی ہے کہ یہ وقت محض ناچ نہیں بلکہ نظام بدلنے کا ہے۔ اور ایک حقیقی انقلاب اور خوشگوار تبدیلی اسی وقت ممکن ہے جب اس ’’سٹیٹس کو‘‘ کے حامل کہنے اور فرسودہ نظام کی جگہ ایک ایسا نظام نو وضع کیا جائے جو انقلابی تبدیلیوں سے آراستہ ہو اور یہ انقلابی تبدیلیاں، معاشی انصاف، معاشرتی مساوات، سماجی برابری اور مذہبی و طبقاتی رواداری جیسے خدوخال سے مزین ہوں،اور اس میں عوام کی شرکت کو یقینی بنایا گیا ہو، اور وہ فیصلہ کن اقدامات میں شامل ہوں، عوام بذات خود اس آمد کیلئے خاصے پر جوش ہیں۔ یہی فارن ہے کہ پورا ملک اسی احتجاجی لہر کی لپیٹ میں آیا ہوا لگتا ہے جو انقلاب اور تبدیلی کی بنیاد پر دکھائی دے رہی ہے، اور تواور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے راہنما جو کل تک اس ’’سٹیٹس کو‘‘ کو بچانے میں خاصے سرگرم دکھائی دیتے تھے اور اس ضمن۔۔۔۔ میں بڑی پر جوش تقریریں بھی مرحمت فرمایا کرتے تھے، وہ بھی عندیہ دے رہے ہیں کہ وسط مدنی انتخابات کا ڈول ڈالا جاسکتا ہے حالانکہ ان کے اپنے ہاتھ بھی خکمرانوں سے کم ’’آلودہ‘‘ یہی ہیں تاہم لگتا ہے کہ کم ازکم انہوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے ان کی اپنی پارٹی نے بھی جلسوں کا اعلان کردیا ہے۔ پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے اپنے ناکردہ اور دوسروں کے کردہ گناہوں کی معافی طلب کرکے ماضی کا کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاید اسی طور پارٹی عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرسکے۔ الطاف حسین اور ان کی پارٹی کراچی میں کئے جانیوالے حالیہ آپریشن سے نالاں نظر آتے ہیں۔ مزید براں انہوں نے اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی مبینہ ناانصافیوں کی بناء پر ملک میں نئے انتظامی یونٹ بنانے کی تجویز بھی دی ہے۔ لسانی اور علاقائی تعصب سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر محض انتظامی یونٹ بنایا مقصود ہوتو اس میں بظاہر حرج اور قیامت والی کوئی بات نظر نہیں آتی، کہ اب ویسے بھی ’’سنٹر کائزیشن ‘‘کی بجائے ’’ڈی سنٹرہ زیشن‘‘ وقت کی ضرورت ہے۔ اختیارات اور وسائل کی ’’مرکزیت‘‘ کی بجائے اس کا پھیلائو ملک اور عوام کیلئے زیادہ سود مند اور اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔ تمام ترقی یافتہ اور تیزی سے رویہ ترقی ممالک میں وسائل اور اختیارات کو گراس روٹ لیول تک پھیلایا گیا ہے اور وہاں ہر مائونٹی کسی حدتک خود مختار ہوتے ہوئے بھی نہ صرف مضبوط مرکز کا حصہ ہوتی ہے بلکہ اس کو مزید مضبوط بنانے کا بھی سبب بنتی ہے، لیکن یہ توقعات اور اقدامات ہم ایک ایسے نظام سے کیونکر منسوب کرسکتے ہیں؟ اقدامات کیلئے نظام بھی اسی قسم درکارہے جو خود میں آیا ہو اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...