امریکی صدر باراک اوبامہ نے اعتراف کیا ’’تنہا‘ دولت اور طاقت کے بل بوتے پر دنیا میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا‘‘۔امریکہ نے ہمیشہ دولت اور طاقت کے نشے میں مذہبی منافرت کا چشمہ لگاکر دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھے ہیں اور ان خوابوں کو تعبیر میں تبدیل کرنے کے لئے تمام تر اخلاقی‘ انسانی‘ مذہبی قدروں کو پاش پاش کرکے اپنے مقصد کے حصول کو اولین ترجیح رکھا مگر دنیا بھر میں تمام تر ہٹ دھرم پالیسیوں کی تشکیل کے وقت امریکہ ہمیشہ یہ بھول گیا کہ کائنات کے اصل فیصلے کسی سپرپاور ملک کے ایوانوں میں نہیں بلکہ اﷲ رب العزت کے ہاتھ میں ہیں اور اﷲ تعالٰی نے اپنی آخری کتاب میں رہتی دنیا تک کے لئے بہترین امن کے قیام کا جامع راستہ بیان فرمادیا ہے لیکن امریکہ طاقت و دولت کے نشے میں نعوذباﷲ خدا کے وجود سے ہی انکاری ہوچکا ہے۔
امریکہ نے مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ طور پر پالیسیاں تشکیل دیں اور اقوام متحدہ کی آڑ میں دنیا بھر کے ممالک کو بھی اپنا ہمنوا بناکر دنیا میں طاقت کا توازن خراب کیا، قدرتی و معدنی وسائل سے مالا مال ممالک میں جمہوریت‘ انسانی حقوق‘ حقوق نسواں اور مختلف حیلوں بہانوں سے شورش پیدا کرکے وہاں کے وسائل پر قبضہ کرلیا۔ امریکہ کی پالیسی یہ ہے کہ جہاں مسلم ملک سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہو وہاں علیحدگی پسندوں کی مکمل حمایت کرکے اقوام متحدہ کے ذریعے اس مسلم ملک کو تقسیم کرایا جائے جبکہ غیر مسلم ممالک میں چلنے والی علیحدگی کی تحریکوں کی قطعی حمایت نہیں کی جاتی چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہوں ۔ امریکہ کی جانب سے مخالفت کے بعد اقوام متحدہ بھی اس معاملے پر اندھی‘ بہری اور گونگی ہوجاتی ہے جیسا کہ مسئلہ کشمیر پر امریکہ نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔
امریکہ نے رواں صدی میں مسلمان ممالک کو آپس لڑاکر انہیں کمزور کیا اور پھر ایک مسلم ملک پر اتحادی افواج سے ملکر حملہ آور ہوتا رہا اور اس اسلامی ملک کی تباہی کے بعد اپنے اگلے شکار کی تلاش میں چل نکلا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ امریکہ عرب ممالک کے پیٹرولیم ذخائر پر قبضے کے لئے انہی شیعہ اور سنی کے نام پر لڑارہا ہے اور اس لڑائی سے فائدہ اٹھاکر پیٹرولیم کی دولت پر قبضے کے منصوبے پر مرحلہ وار عمل پیرا ہے لیکن امریکہ کی عیاری اور ازلی شاطرانہ پالیسیوں پر عملدرآمد میں مسلم حکمران بہت بڑے سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ ان کے ذہنوں میں بھی یہ نقش ہوچکا ہے کہ اگر ہم نے امریکہ کی مخالفت مول لی تو ہمیں اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑیں گے اسی لئے وہ من و عن امریکی ڈکٹیشن پر اپنا ملک چلانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ایشیائی ممالک میں غربت کے باعث یہاں ڈالرکی چمک سے کام لیا جاتا ہے اور ایک مخصوص طبقے کو اپنی مرضی کے مطابق ملک چلانے کے لئے یہاں مسلط کیا ہوا ہے جو کرپشن اور لوٹ مار کرکے یہاں کے وسائل اور دولت امریکی و مغربی ممالک کے بینکوں میں محفوظ کرتا ہے جس کا فائدہ ان ممالک کو ہوتا ہے جبکہ ایشیاء میں کئی دہائیوں سے صرف اور صرف اس وعدے پر عوام سے ووٹ لیا جارہا ہے کہ ہم غربت و مہنگائی دور کریں گے۔ عوام کا معیار زندگی بلند کریں گے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور حکمرانوں کا اپنا معیار زندگی بلند سے بلند تر ہوتا چلا جارہا ہے جبکہ عوام فاقوں اور خودکشیوں پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ڈگری ہولڈرچپڑاسی کی نوکری کے لئے بھی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
امریکہ نے روس سے ویتنام کا بدلہ لینے کے لئے 70ء کی دہائی میں روس کی ایک حماقت سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور روس نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو امریکہ نے پاکستان میں اپنی دولت کے بل بوتے پر نام نہاد دانشوروں ‘ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو اس بات پر قائل کرلیا کہ روس کا اصل ہدف گرم پانیوں تک رسائی ہے اور وہ اسلام آباد پر اپنا جھنڈا لگانے کے لئے افغانستان کے راستے حملہ آور ہوگا اور اس قدر زہریلا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ پاکستان کی اکثریت عوام بھی اس بات پر قائل ہوگئی کہ روس اور افغانستان کی جنگ دراصل پاکستان کی جنگ ہے اور ہمیں اس میں ہر صورت مداخلت کرنی ہوگی جس پر امریکہ نے رائے عامہ ہموار کرنے کے بعد اپنی طرف سے بھرپور مالی و عسکری مدد کی پیشکش کردی اور طورخم بارڈر پر امریکی جرنیل کلمہ شہادت بلند کرکے افغانستان میں جاکر روس کے خلاف لڑنے والوں کو مجاہدین کہہ کر رخصت کرتے تھے اور مکمل تربیت و اسلحہ فراہم کیا جاتا تھا۔
امریکی طاقت و دولت کے بل بوتے پر پاکستان نے امریکہ کے ہم پلہ سپر پاور روس کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیا لیکن اس کے بدلے ہمیں صرف اور صرف دہشت گردی‘ منشیات‘ خودکش حملے اور فرقہ واریت ہی ملی ہے۔ امریکہ نے ایک تیر سے دو شکار کئے۔ ایک طرف تو ایک سپر پاور کو ختم کرکے دنیا کا S.H.O. بن گیا تو دوسری طرف اسلامی دنیا کی عملی سربراہی کرنے کی اہلیت رکھنے والے پاکستان کو ایسی بدامنی کی دلدل میں دھکیل دیا جس سے چھٹکارا اب بھی عنقریب نظر نہیں آتا ۔ امریکہ نے پاکستان اور مجاہدین کواستعمال کرنے کے بعد آنکھیں پھیر لیں اور مجاہدین کو پہلے القاعدہ پھر طالبان اور اب دہشت گرد قرار دیکر ان کے لئے زمین تنگ کردی ہے۔
امریکہ نے افغانستان پر قبضے اور اسامہ بن لادن کو شہید کرنے کے لئے 9/11کی سازش تیار کی جس کی مکمل تفصیل امریکی صحافی تھیری میسن کی کتاب 9/11 The big Lieمیں درج ہے اور 9/11 کو نیویارک میں بلند عمارتوں سے خود طیارے ٹکراکر مظلوم بننے کے ساتھ ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا اور اپنی دولت و طاقت کے نشے میں یہ سمجھ بیٹھا کہ جہاں روس نے حملہ کرکے اپنا وجود ختم کرلیا تھا وہاں میں فتح کے جھنڈے گاڑ لوں گا اور خطے میں موجود رہ کر پاکستان ‘ ایران اور چین کی نگرانی کروں گا مگر امریکہ اپنی تمام تر دولت اور عسکری قوت استعمال کرنے کے باوجود افغانستان فتح نہیں کرسکا جس کا اعتراف امریکی حکام خود کرچکے ہیں اور جس وقت ابامہ یہ بیان دے رہے تھے کہ تنہا‘ دولت اور طاقت کے بل بوتے پر دنیا میں امن قائم نہیں کرسکتا اسی وقت افغانستان کے صوبے قندوز پر طالبان حملہ آور تھے جنہوں نے چند گھنٹوں کی لڑائی کے بعد پورے صوبے پر مکمل قبضہ کرلیا اور امریکہ سے تربیت حاصل کرنیوالی افغان آرمی ہتھیار چھوڑ کر بھاگ گئی۔ امریکہ و نیٹو فورسز خود بھی بے بس نظر آئیں۔ امریکہ کو اب بھی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی ہوگی اور چین کی طرح توسیع پسندانہ عزائم کے بجائے پرامن رہ کر اپنے عوام و ملک کی خوشحالی پر توجہ دینی ہوگی اور دنیا کی تھانیداری کا خواب ترک کرکے اﷲ رب العزت کے اقتدار اعلٰی پر ایمان لانے کے بعد اقوام متحدہ کو دنیا میں انصاف و امن کے قیام کے لئے استعمال کرنے سے ہی دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔امریکہ کو دُہرا معیار ترک کرکے ہر مذہب و خطے اور امیر و غریب ممالک کے لئے ایک ہی معیار سے پالیسیاں تشکیل دینی ہوں گی اور اپنی اسلحہ سازی کی صنعت سے معیشت چلانے کے بجائے دنیا میں امن لانے والی انڈسٹری کو فروغ دیکر اپنی معیشت کا انحصار منتقل کرنا ہوگا ۔ امریکہ چاہے کچھ بھی کرلے مگر اﷲ کی لاٹھی سے کسی صورت پناہ نہیں مل سکتی اور اﷲ پر ایمان لانے والوں کو اپنے ایوانوں کا غلام بنانا قیامت تک ممکن ہی نہیں۔