ہفتہ ‘18؍ ذی الحج‘ 1436ھ ‘ 3؍ اکتوبر 2015ء

Oct 03, 2015

متحدہ ’’آل پاکستان مسلم لیگ‘‘ کے قیام پر اتفاق ہو گیا، مجھے چیئرمین مقرر کیا گیا ہے: پرویز مشرف۔
چودھری شجاعت، ذوالفقار کھوسہ اور کراچی سے پرانے مسلم لیگی سید غوث علی شاہ ایک مہینے سے مشرف کو سائبان مہیا کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔ چودھری شجاعت کی تو خیر ہے ان کا مشرف کے بغیر گزارہ ہی نہیں، لیکن کھوسہ صاحب اور شاہ جی پر بڑا افسوس ہوا ہے۔ جناب اگر آ جا کر آپ دونوں کو مشرف کی بارگاہ میں ہی سجدہ ریز ہونا تھا تو پھر اتنا عرصہ اس محبوب کا دور دور سے دیدار کیوں کرتے رہے۔ جب میاں نواز شریف جدہ سدھار گئے تھے تو آپ کو تب ہی اڑان بھر کر مشرف کے کندھے پر بیٹھ جانا چاہیے تھا۔ شاید تب کوئی وزارت بھی مل جاتی لیکن اب آپ نے آخری عمر میں مشرف کو چیئرمین مان کر ہمیشہ کے لئے اپنے نام پر ایک دھبہ لگوا لیا ہے۔ یہ دھبہ مرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوگا۔
ویسے سن رکھا تھا کہ لیگیوں کی گردن میں ’’سریا‘‘ ہے جس بناء پر وہ مسلم لیگوں کو اکٹھا نہیں ہونے دیتے، لیکن حالات اس بات کی چغلی کھا رہے کہ اتفاق فائونڈری کا سریا بہت اعلیٰ کوالٹی کا ہے وہ ٹیڑھا نہیں ہوتا، اسی بنا پر آج ایک نئی مسلم لیگ نے جنم لیا ہے۔ ویسے قائداعظمؒ کی مسلم لیگ بڑی خوش قسمت ہے۔ اس کے بچوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے البتہ ہمارے سیاستدان بڑے بدقسمت ہیں جو ٹکڑوں میں بٹ کر اپنی قوت کو تقسیم کر رہے ہیں۔ چودھریوں کی نئی مسلم لیگ کے لئے جدوجہد کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ آخر دم تک مشرف کو چھوڑنے والے نہیں اور دونوں کزن اپنے شہر کے شاعر استاد امام دین گجراتی کی زبان میں یوں کہہ رہے ہیں… ؎
تیرے قدموں میں یا مولا نکل جائے ہمارا دم
اٹھائیں نہ محشر میں مصیبت رنج اور غم
بجز تیرے نہیں رکھتے محبت غیر کی ہم
…٭…٭…٭…٭…
پیپلز پارٹی کی کسمپرسی، لاہور میں چیئرمین، وائس چیئرمین اور کونسلروں کیلئے امیدوار میسر نہیں
پیپلز پارٹی کی قیادت اور اس کے سربراہوں نے اپنے ہاتھوں سے پی پی پی کا گلہ گھونٹا ہے اور اب وہ فدوی عظیم آبادی کی زبان میں یہ کہنے کا انتظار کر رہے ہونگے کہ…؎
عاشق کا جنازہ ہے، بڑی دھوم سے نکلے
محبوب کی گلیوں سے ذرا جھوم کے نکلے
اسی جذبے کے تحت پی پی پی کی قیادت بلدیاتی الیکشنوں کے دنوں میں ملک سے ایسے غائب ہوئی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں۔ جب الیکشن ہونگے تو پیپلز پارٹی والے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے دھاندلی دھاندلی کا رونا روئیں گے ان کا احتجاج چور مچائے شور جیسا ہی ہو گا۔ پنجاب کو اپنا گڑھ بنانے کا دعوی ایک رپورٹ سے دھرے کا دھرا رہ گیا ہے کہ 720 میں سے صرف 219 امیدوار ملے ہیں۔ 68 کونسلوں میں تو کونسلر تک کا کوئی امیدوار ہی نہیں۔
بعض جگہوں پر تو آزاد امیدوار کے سروں پر پگ باندھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلکہ ایک یوسی میں جب کوئی امیدوار نہیں ملا تو عین موقع پر وائس چیئرمین کیلئے ایک مفتی کی ’’مفت‘‘ میں خدمات حاصل کر لی گئیں۔ بعض مفتی حقیقت میں ’’مفتے‘‘ ہوتے ہیں بس نام کے ساتھ مفتی کا لاحقہ لگاکر علماء کے درمیان اپنی چودھراہٹ قائم کرنے لگتے ہیں۔ مانگے تانگے کے کرائے کے امیدوار یہ پیپلز پارٹی کی توہین ہے۔
بلاول سے گزارش ہے۔ جناب! کوڑھا رونے نا لوں چپ چنگی اے… اگر آپ کو امیدوار نہیں مل رہے تو پھر پی پی پی کی تجہیز و تکفین کا بندوبست کیاجائے۔ تمام پرانے کارکنان کو گڑھی خدا بخش بلا کر ایک دفعہ ہی قل، ختم اور چالیسواں کر لیں تاکہ روز روز کے رونے کی بجائے ایک دفعہ جی بھر کر رو لیا جائے۔ لیکن جب آپ تدفین کریں تو 18 کروڑ عوام سے پوچھ ضرور لیں ۔
پی پی پی کے ذمے جو ملک و قوم کا قرض ہے وہ لے لیں یا معاف کر دیں۔ کیونکہ تدفین کے بعد قبر اکھاڑ نا کوئی عقلمندی نہیں۔ ایک بات یاد رکھی جائے کہ ایمنٹسی انٹرنیشنل کے مطابق پیپلز پارٹی کے دور میں صرف پہلے تین سال میں 28 کھرب کی کرپشن ہوئی تھی۔
…٭…٭…٭…٭…
پائلٹوں کی ہڑتال۔ ملک بھر کے مختلف ائیرپورٹس پر 25 پروازیں منسوخ
پی آئی اے پر سفر کرنے سے لوگ پہلے ہی ’’کنی کتراتے‘‘ ہیں لیکن اب پائلٹوں کی ہڑتال نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ مسافر پہلے پی آئی اے میں سفر کر کے احتجاج کرتے ہیں کیونکہ باسی کھانے عملے کے نامناسب رویے اور اکھڑی سیٹیں ملتی تھیں لیکن اب بغیر سفر کئے احتجاج کر رہے ہیں۔ 25 پروازوں میں نہ جانے کتنے لوگوں نے سفر کرنا تھا۔ کسی کا ویزہ ختم ہو رہا ہے تو کوئی اپنی ملازمت میں واپس جا رہا تھا۔ ہر کوئی ایمرجنسی میں ہے۔ لیکن پی آئی اے نے ان کی ایمرجنسی کے سامنے بند باندھ دیا ہے۔ پائلٹ بھی گٹھ جوڑ کر کے پی آئی اے انتظامیہ کوہراساں کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ انتظامیہ نے اگر دو پائلٹوں کے لائسنس اس بناء پر منسوخ کئے ہیں کہ انہوں نے مقررہ وقت سے زیادہ پروازیں اڑائی ہیں تو اس میں غلط بات کیا ہے۔ یہ تو مسافروں اور جہازوں کو محفوظ رکھنے کیلئے اچھا اقدام ہے۔ پالپا ایسوسی ایشن کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے لیکن انہوں نے اس پر مور سا منہ بنا کر احتجاج شروع کر دیا ہے۔ پی آئی اے میں اگر جان پڑی ہے تو خدا را ہڑتالیں کر کے اس کی جان مت نکالیں۔

مزیدخبریں