”حکومتی بیانات“.... عوام کے زخموں پر نمک!

Oct 03, 2015

خالد کاشمیری

عساکر پاکستان کے زیر اہتمام ملک و قوم کے دشمنوں کیخلاف کامیاب کارکردگی سے پوری قوم مطمئن ہونے کیساتھ امن و سکون کی زندگی گزارنے لگی ہے۔ اس شاندار عسکری کامیابی کا اظہار اربابِ اقتدار کی طرف سے کرنا بھی ضروری سمجھا جارہا ہے اور میڈیا میں خودنمائی کی خواہش کے تحت کہا جاتا ہے کہ پاک فوج کے کامیاب آپریشن سے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی طرف سے ہر روز نت نئے قسم کے بیانات کی بوچھاڑ ہوتی رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا مشن ہے یا ”نوجوانوں کو بااختیار بنانے کےلئے انقلابی اقدامات کئے ہیں۔“ انکی طرف سے اس بات کو بھی خبر بنایا جاتا ہے کہ ”منصوبوں میں شفافیت برقرار رکھنا ہمارا طرئہ امتیاز ہے۔“ بڑے طمطراق کے ساتھ اس بات کا اعلان بھی ہوا کہ نالج پارک کیلئے آئندہ تین برسوں کے دوران 21 ارب روپے مختص ہونگے۔ایک دفعہ پھراس بیان کو دہرانے کی ضرورت محسوس کی گئی کہ چین کا اربوں ڈالر کا اقتصادی پیکیج پاکستان میں روشن معاشی مستقبل کی نوید ہے۔ ایسے بیانات کا غیر جانبدارانہ دیانتداری کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ مسند اقتدار پر براجمان ارتکازِ اختیارات کے مزے لوٹنے والے ایسے خطہ¿ ارض سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کے مکین ہر طرح سے خوشحال ہیں۔ صوبے کے چپے چپے میں امن و سکون ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے محلات تک رسائی حاصل کرنےوالی شاہراہوں سمیت نہ صرف صوبائی دارالحکومت بلکہ اسکے سینکڑوں کوسوں دور کے قصبوں اور دیہات میں پختہ سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ صوبے کا کوئی ایک کونہ کھدرا بھی ایسا نہیں جہاں کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی نہ ملتا ہو۔ بڑے بڑے شہروں میں ہسپتالوں کی بھرمار ہی نہیں، وہاں ادویات بھی عوام کو آسانی سے دستیاب ہیں جبکہ دور کے مضافاتی علاقوں میں بھی عوام کی ضرورت کےمطابق شفاخانے ہیں اور وہاں نہ صرف قابل اور ذہین ڈاکٹر تعینات ہیں بلکہ ہر مرض کی ادویات بھی عوام کےلئے موجود ہیں۔ صوبے بھر میں بچوں کی تعلیم کیلئے حکومتی سطح پر سکولوں کی اس قدر بہتات ہے کہ گلیوں بازاروں اور محلوں میں ننگ دھڑنگ ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں کام کرنیوالے بچوں کا نام و نشان نہیں ملتا۔ پورے صوبے میں خوشحالی کا دور دورہ ہے۔تیرہ کروڑ عوام میں سے کسی کا گھرانہ ایسا نہیں جو دو وقت کی روٹی سیر ہوکر نہ کھاتا ہو اور چین کی نیند نہ سوتا ہو، بے روزگاری برائے نام ہو۔ مگر ایسا ہرگز نہیں ہے، رتی برابر بھی نہیں ہے۔ عوام کی عظیم اکثریت غربت و مفلسی کی اتھاہ گہرائیوں میں کراہ رہی ہے۔ کروڑوں گھرانوں کے بچے اور بڑے فاقہ کشی کا شکار ہیں، وہ بھوکے سوتے ہیں، انکا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ کروڑوں خاندانوں کے کمسن بچے گھروں کی کفالت کےلئے مختلف قسم کی دکانوں، چائے خانوں، سائیکلوں اور موٹر سائیکل مرمت کرنے والی دکانوں پر صبح سے رات گئے تک کام کرتے رہتے ہیں۔ ایسے بدقسمت کروڑوں لوگوں میں سے کوئی بیمار ہوجائے تو ہسپتالوں سے ضروری ادویات نہ ملنے سے وہ قبل از وقت موت کی دہلیز تک پہنچ جاتا ہے۔ صوبے میں ضرورت کے مطابق شفا خانوں کی ناقابل بیان حد تک قلت تو ایک طرف رہی جو ہسپتال موجود ہیں ان میں بھی ڈاکٹروں کی مقررہ تا مطلوبہ تعداد نہیں ہوتی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ مسند اقتدار پر براجمان عوام کے خدمتگار ہونے کے دعویدار سردرد کا علاج کرانے کیلئے لندن اور امریکہ کے ہسپتالوں کا رخ کرتے رہتے ہیں۔ 

اسی حقیقت حال کی روشنی میں ایک درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان نے 4 اپریل 2014ءکو کہا تھا کہ زرعی ملک میں لوگوں کو بھوک سے مرتا دیکھ کر ندامت ہوتی ہے۔ مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ نے وہی ریمارکس دیئے جو ملک کے مفلوک الحال اور فاقہ کش عوام میں زبان زدعام ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ عوام کے مسائل حل نہ کرسکیں تو یہاں بیٹھنے کا کیا فائدہ؟ آج کل کوئی شخص سات ہزار روپے ماہوار میں کیسے گزارا کرسکتا ہے۔ یہ بات موجودہ نام نہاد جمہوری دور میں صرف اور صرف عدلیہ ہی کی زبان سے ادا ہوسکتی ہے۔ ور نہ کسی عام فاقہ کش کی زبان سے یہ بات اربابِ اقتدار کو کہاں برداشت ہوسکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے حالیہ دور حکومت کے دوران میں ایک بار بھی ایسا موقع یا ان کا ایک بھی بیان دیکھنے میں نہیں آیا کہ جس سے ظاہر ہو کہ وہ عوام کے حقیقی مسائل کے حل کے سلسلے میں سنجیدہ ہوں یا مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے کروڑوں لوگوں کو جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کےلئے کسی مو¿ثر اقدام کے اٹھانے کو تیار ہوں۔ خدا معلوم وہ کونسے اور کہاں کے نوجوان ہیں جنہیں بااختیار بنانے کے دعوے کئے گئے ہیں؟ ایسا بھی نہیں ہے نوجوان کو خودمختار، نیم سرکاری اداروں میں کھپا دیا ہو، تو پھر آخر ملک کے بیمار اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے حکومت نے کیا منصوبہ بندی کی اور اس پر کہاں تک عمل درآمد ہوا؟ اس کا جواب بھی صفر ہے۔ جمہوری نظام کی روح تو یہ ہے کہ جمہوریت کے ثمرات نچلے درجے کے عام آدمی سے لے کر بالائی سطح کے ان لوگوں تک برابر پہنچ سکیں جنہیں اشرافیہ کا نام دیا جاتا ہے اور انہی میں سے کچھ لوگ اپنی تمام تر ظاہری اور خفیہ کارکردگی کی بدولت مسند اقتدار پر براجمان ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ بلاشبہ ایسے لوگوں کو بھی دیوان اقتدار میں پہنچانے میں مرکزی کردار مفلس و قلاش اور فاقہ مست عوام ہی ادا کیا کرتے ہیں۔ اب بھی جو صاحبانِ اقتدار عوام کے حقیقی تکلیف دہ مسائل سے صرفِ نظر کرتے ہیں، انکے تمام تر بیانات قومی درد سے ناآشنا ہونے کے غماز ہوتے ہیں جبکہ ایسے اربابِ اقتدار کو جمہور ہی نے اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچایا ہوتا ہے۔ انہی عوام کی قربانیوں سے جمہوریت بحال اور جمہوری نظام برپا ہوا ہوتا ہے۔ مگر یہ بدقسمت عوام جمہوری نظام کے ثمرات سے ذیل کی شعری ضرب المثل کے مطابق ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں:-
کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا چلا
آیا کتا کھا گیا، تو بیٹھی ڈھول بجا

مزیدخبریں