پاکستان میں سندھی، بلوچی، پٹھان اور پنجابی کے علاوہ بھی کئی مخلوقات آباد ہیں۔ یہ مخلوقات ایرانی، انڈین، سعودی، امریکی اور افغانی ہیں۔ کبھی کبھار اکا دکا پاکستانی بھی دکھائی دیتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کمیاب مخلوق کےخلاف بہت پروپیگنڈہ ہوتا رہتا ہے۔ چونکہ پاکستانی پاکستان میں اقلیت میں ہیں اس لیے یہ ہر الزام کو سہہ لیتے ہیں۔ پاکستان کے اندر پاکستانیوں کی نسل کشی کا کام بھی بڑے عرصے سے جاری ہے۔ غالباً یہ کام 1980ءکے بعد شروع ہوا۔ اس سے پہلے سڑکوں، چوراہوں اور ہوٹلوں میں ہر طرف پاکستانی ہی دکھائی دیتے تھے۔ پھر ان میں دھیرے دھیرے سعودی، ایرانی، افغانی، امریکی اور انڈین شامل ہوتے گئے۔ جہاں تک نسل کشی کی بات ہے تو پاکستانیوں کی نسل کشی بڑے منظم انداز میں کی گئی۔ کسی کو افغانی فکر نے متاثر کیا تو وہ اس فکر کا علمبردار ہو گیا۔ کسی کو سعودی فکر نے متاثر کیا تو سعودی فکر کا پرچارک بن گیا۔ کسی کو ایرانی فکر نے متاثر کیا تو وہ اس کے صدقے واری ہو گیا۔ کسی کی رگوں میں انڈیا کی محبت دوڑنے لگی تو اس نے انڈیا کو مائی باپ بنا لیا۔ کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے وفاداراور ترجمان بن گئے لیکن صد افسوس پاکستان کے ترجمان کم سے کم ہوتے چلے گئے۔ ان سب سے سستا خون پاکستانیوں کا ہے۔ جب بھی کسی کی پیاس بڑھتی ہے تو وہ پاکستانیوں کے خون سے بجھاتا ہے، چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا دیار غیر میں۔ جب بھی کوئی حادثہ یا سانحہ گزرتا ہے تو یہ لوگ اپنے غیر ملکی مہربانوں اور محسنوں اور آقاﺅں کے دفاع میں میدان میں اتر آتے ہیں۔ کوئی بھی پاکستانی کےساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔ نہ ہی پاکستانیوں کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے۔ امریکہ کا نیشنل دنیا میں کہیں بھی چلا جائے وہ امریکی رہتا ہے ہندوستانی اپنی سرزمیں سے وفادار، جرمن، فرنچ ، عربی، ایرانی، افغانی سب اپنے ممالک سے وفادار لیکن پاکستانی نیشنل دوسری قوموں کے وفادار اور اس سرزمین میں رہتے ہوئے بھی کبھی ایرانی تو کبھی سعودی دکھائی دیتے ہیں۔ ان لوگوں نے پاکستان اور پاکستانیوں میں اتنے کیڑے ڈالے کہ دوسری دنیا پاکستانیوں کو اب کیڑے مکوڑے سمجھنے لگی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے پاکستان کے اندر دو معصوم لوگوں کو قتل کر دیا۔ لیکن امریکہ نے اپنے شہری کو تحفظ فراہم کیا ا ور حکومت پر دباﺅ ڈال کر چند دن کے اندر اس کو واپس لے گئے۔ کیونکہ امریکہ کیلئے اس کا ایک ایک شہری اہم ہے لیکن ہم حکومتی سطح پر کبھی عافیہ صدیقی کی بات نہیں کر پائے۔ اس لیے کہ عافیہ پاکستانی تھی اور اسکی عزت اور خون بھی ارزاں۔ زید حامد کی سعودیہ میں گرفتاری کی خبر تو سنی تھی لیکن انکے ساتھ کیا معاملہ ہوا یا ہو رہا ہے اس سے عوام کو بے خبر رکھا گیا ہے اور مجھے حیرت ہوتی ہے اس معاملے میں پاکستانیت سے عاری لوگوں کی اٹھتی آوازوں پر جو مطالبہ کرتی ہیں کہ زید حامد کو پھا نسی دی جائے۔ زید حامد ہوں یا عافیہ صدیقی وہ سب سے پہلے پاکستانی ہیں۔ اگر وہ مجرم بھی ہیں تو ان پر مقدمہ پاکستانی عدالتوں میں چلتا ۔ لیکن چونکہ ہم نے پاکستانی بن کے سوچا ہی نہیں اس لیے پرزور مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ دیار غیر میں جو بھی پاکستانی پکڑا جائے اسے اذیت ناک سزائیں دی جائیں۔ دیار غیر میں پڑھنے والے پاکستانیوں کی لاشیں گھر آئیں تب بھی ہم خاموش رہتے ہیں۔ ایسے واقعات کی مذمت حکومتی سطح پر ہونی چاہیے تھی ۔ ایسے اقدامات حکومتیں اٹھاتی ہیں لیکن جو ہاتھ بھیک مانگتے ہوں وہ گریبانوں تک نہیں آ سکتے۔ جن کے پیٹ کھانے کے عادی ہو جائیں وہ ایک وقت کی بھوک نہیں کاٹ سکتے۔ اور جو نظریں مال وزر کی ہوس میں پڑ جائیں وہ کسی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کر سکتیں۔ حکمران اپنی دوستیاں نباہ رہے ہیں۔ اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کر رہے ہیں۔ سعودی عرب میں حج کے دوران ہونےوالے حادثہ میں شہیدوں کے جسموں کی بے حرمتی کی گئی ، انھیں کرین سے اٹھا کر ٹرکوں میں ڈھیر لگائے گئے۔ مرد وں کے اوپر عورتیں ، عورتوں پر مردوں کے ڈھیر۔ دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے لیکن ہم اس بے حرمتی پر دکھ کا اظہار بھی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہم پاکستانی دنیا کی کم تر قوم ہیں۔ کیونکہ ان کی اپنے حق میں بلند کی جانیوالی آواز پر کوئی قانون لگا دیا جاتا ہے۔ جبکہ حکمرانوں کی کرپشن اور ملک سے غداری پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ محب وطن پاکستانیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے، ذہین لوگوں کو ماورائے عدالت پولیس مقابلوں میں مروا دیا جاتا ہے، سچے نظریاتی اور وطن دوست بغیر کسی جرم کے آدھی عمر جیلوں میں کاٹتے ہیں اور مجرم آزادانہ دندنداتے پھرتے ہیں۔ سوسائٹی کی کریم ہاتھوں میں ڈگریاں لیے فاقوں پر مجبور ہے۔ اعلی عہدوں اور اچھی نوکریوں پر ان غیر ملکی وفاداروں کی اجارہ اداری ہے۔ پاکستانیوں کے ساتھ پاکستان کے اندر وہی سلوک کیا جا تا ہے جو انکے ساتھ مشرق وسطیٰ اور دیگر غیر ممالک میں روا رکھا جاتا ہے یعنی ٹی سی این والا یا وہ سلوک جو انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے اندر پاکستانیت کو فروغ دینے کی شدید ضرورت ہے۔ کسی بھی معاملے پر لوگوں کی رائے وہ ہونی چاہیے جو پاکستان اور اسکے عوام کے حق اور مفاد میں ہو۔ اس میں کسی اور کی وفاداری کی جھلک نظر نہیں آنی چاہیے۔ پاکستانیوں کو دیار غیر میں تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ کل کو جو عافیہ کے ساتھ ہوا وہ قوم کی دوسری بیٹیوں کیساتھ بھی ہو سکتا ہے جو زید حامد کیساتھ ہو رہا ہے۔ کل کو کسی اور پاکستانی دانش ور کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اپنی عزت کیلئے دوسرے پاکستانیوں کو عزت دینا سیکھنا ہو گی۔ پاکستان اور پاکستانیوں کا مذاق اڑانا چھوڑنا پڑےگا دنیا میں کہیں بھی پاکستانیوں کیساتھ کچھ ہو ہمیں ایک ہو کر اپنی آواز بلند کرنا پڑےگی۔ ورنہ پاکستانیوں کا خون یوں ہی سستا رہے گا۔ پاکستانی دنیا میں یوں ہی خوار ہوتے رہیں گے اور پاکستان کے اندر دوسرے ملک لوگوں کی فکر میں گھس کر ہمیں آپس میں لڑاتے رہیں گے۔ اسکے ساتھ ہمیں ایک پاکستانی حکمران کی ضرورت بھی ہے جس کا دارالحکومت واشنگٹن لندن، ماسکو، چین، ریاض، دبئی نہ ہو بلکہ پاکستان ہو۔