حدیث پاک کامفہوم ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں دوزخی ہیں یعنی دونوں کو دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا اندیہ دیا گیا ہے مگر موجودہ دور میں دولت کی ہوس نے انسان کو اس قدر لالچی بنا دیا ہے کہ رشوت و بدعنوانی کی رقم کو بھی جائز سمجھا جا رہا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں صرف امیر کی عزت کی جاتی ہے اور غریب کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ دیکھا دیکھی میں ہر آدمی راتوں رات امیر بننے کیلئے ناجائز و جائز ذرائع سے شرح آمدنی میں اضافہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہے ۔ جعلساز و ملاوٹ مافیا سرگرم ہے جبکہ پراپرٹی فراڈ بھی طول پکڑ چکا ہے۔ سرکاری اداروں میں کرپشن اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ملک کی جڑیں کھوکھلی ہو کررہ گئی ہیں۔ حکومتی ایوانوں میں بیٹھے عہدیداروں سے لیکر ہر ادارے کے چھوٹے اہلکاروں تک کرپشن و بدعنوانی ان کی رگوں میں گھس گئی ہے جبکہ کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائی کے لئے حکومت کی جانب بنائے گئے ادارے بھی حکومتی ارکان کے کرپشن میں ملوث ہونے کے باعث ناکام ہو چکے ہیں اورمحض چھوٹے اہلکاروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے بڑے مگرمچھوں پرہاتھ ڈالنے والا کوئی نہیں ہے۔ پنجاب میں صوبائی محکموں کے کرپٹ افسران و ملازمین کے خلاف کارروائی کےلئے بنایا گیا ادارہ اینٹی کرپشن خود کرپشن میں مبتلا ہو چکا ہے اور اس ادارے کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اینٹی کرپشن ملتان ریجن میں تعینات کرپٹ افسران و اہلکار مافیا کے خلاف کاررورائی کی بجائے ان سے معاملات طے کر لیتے ہیں جس کے باعث محکمہ پولیس‘ مال‘ انہار‘ تعلیم‘ صحت‘ بلڈنگ‘ ٹی ایم اے‘ ایم ڈی اے ‘ جیل خانہ جات‘ ایکسائز‘ واسا و دیگر صوبائی محکموں کے کرپٹ افسران و اہلکاروں کے خلاف دی گئی درخواستوں پر کارروائی ٹھپ کر دی جاتی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ رواں سال کے دوران کرپٹ مافیا کیخلاف دی گئی سینکڑوں درخواستوں پرکارروائی عمل میں نہیں لائی اور ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی ہیں جس کے باعث کرپٹ مافیا کھلے عام لوٹ مار میں مصروف ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اینٹی کرپشن حکام صرف چوکیدار‘ سپاہی اور نائب قاصد جیسے چند چھوٹے اہلکاروں کوپکڑ کرکارکردگی ظاہر کررہے ہیں مگر مدد کمیٹی سکینڈل ‘ محکمہ پولیس بوگس بھرتی سکینڈل ‘ زکریا یونیورسٹی جوابی کاپی و ایڈمن آفیسرز بھرتی سکینڈل سمیت دیگر اہم سکینڈلز کے مقدمات میں مطلوب ملزمان کو گرفتار نہیں کیا گیا کیونکہ ان سیکنڈلز میں اعلیٰ افسران وعہدیدار ملوث ہیں۔واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل اینٹی کرپشن کی ایک خصوصی ٹیم ہوتی تھی جو کہ صوبائی محکموں میں جاکر بدعنوانی و کرپشن بارے سورس رپورٹ تیار کرتی تھی جس کی روشنی میں کرپٹ مافیا کو شکنجے میں لایا جاتا تھامگر موجودہ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کی موجودگی میں سورس رپورٹ تیار کرنے والی ٹیم کا وجود ختم ہو گیا اور مافیا سے حصہ وصول کرکے کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے معلوم ہوا ہے کہ سفارش اور رشوت کے بغیر اینٹی کرپشن حکام کو دی جانے والی درخواستوں کی انکوائری پر مہینوں لگ جاتے ہیں مگر رشوت کے عوض فوری ایکشن لیا جاتا ہے اور ذاتی معاملات کو بھی ترجیح دی جا رہی ہے ۔ گزشتہ دنوں ملتان پولیس جوائنٹ ٹاسک ٹیم (جے ٹی ٹی) کی انچارج لیڈی سب انسپکٹر شبانہ سیف نے اندرون دہلی گیٹ میں سرچ آپریشن کے دوران بدنام زمانہ منشیات فروش خاتون کے گھرکی تلاشی لی جس پر منشیات فروش خاتون نے اپنی بے عزتی محسوس کی اور لیڈی سب انسپکٹر کے خلاف اینٹی کرپشن حکام کو درخواست دے دی۔ سرکل آفیسر مہر وسیم نے لیڈی سب انسپکٹر کو انکوائری کیلئے بلایا تو شبانہ سیف نے سرکل آفیسر کو مذکورہ منشیات فروش خاتون کے خلاف اینٹی نارکوٹکس و مقامی تھانوں میں درج منشیات کے مقدمات بارے بتایا اور کہا کہ خاتون الزام تراشی کر رہی ہے مگر اینٹی کرپشن حکام نے ایک ہفتہ کے اندر ہی لیڈی سب انسپکٹر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ معلوم ہوا ہے کہ اس مقدمہ کے اندراج کیلئے اینٹی کرپشن حکام نے منشیات فروش خاتون سے بھاری رشوت وصول کی۔ دوسری جانب چند روز قبل اینٹی کرپشن حکام نے ایم ڈی اے کے تین افسران کو گرفتار کیا۔ ان افسران نے بتایا کہ انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے حالانکہ وہ اس مقدمہ کی ریکوری جمع کروا چکے تھے اورمقدمہ خارج کرنے کیتجویز بھی دی گئی تھی مگر مقدمہ کی افادیت ختم ہو جانے کے باوجود انہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ اینٹی کرپشن افسران بارے اس سے قبل بھی متعدد شکایات سامنے آئی ہیں کہ پسند ناپسند کی بنیاد پر ٹا¶ٹ مافیا کے ذریعے پولیس سمیت مختلف محکموں کے افسران و اہلکاروں کے خلاف درخواستیں دلوا کرانہیں بلیک میل کیا جاتا ہے مگر انصاف کے متلاشی عام شہریوں کو انصاف نہیں ملتا۔ ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن پنجاب کے عہدے پر تعینات ہونے والے بریگیڈئر (ر) مظفر علی رانجھا کو چاہئے کہ ملتان آفس کا فوری دورہ کریں اور کرپٹ عناصر کے ساتھ سازباز ہونے والے اینٹی کرپشن افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اور بااثر ملزموںکو شکنجے میں لانے کیلئے اقدامات کئے جائیں تاکہ محکمہ کی ساکھ کو بچایا جا سکے۔