ڈاکٹر ابرار حسین ساقی
حضورسےدعالم کے تمام صحابہ کرام رشد و ہداےت کے پےکر اور نگاہِ فراست کے مالک تھے۔ انہوں نے فےضان رسالت سے تربےت پائی اورحضور پر وحی اترنے کی کےفےت کو دےکھا ۔مگر جس کو نوےد فراست ملی، جس نے موافقت وحی کا مرتبہ پاےا جس کی زبان امام و تحدےث کا مرکز بنی وہ عمر فاروقؓ تھے۔ حضور نے فرماےا پہلی امتوں مےں محدث ہوتے تھے اگر مےری امت مےں کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے۔
محدث کا مفہوم: مفہومِ محدث کے بارے مےں اہل علم کے متعدد اقوال ملتے ہےں تورپشتی نے کہا محدث وہ شخص ہے جس کی رائے صائب اور ظن صادق ہو۔
پچھلی امتوں مےں کسی ایک رسول کی شرےعت کی تفہےم کے لئے تسلسل اور تواترکے ساتھ انبےاءآتے رہتے تھے۔ سرکار دو عالم پر اللہ تعالیٰ نے نبوت ختم کر دی تو اللہ تعالیٰ نے نبی کی جگہ محدث کو مقررکر دےا۔ پس تمام اولےاءمحمدیےن محدث ہےں لےکن اس گروہ کے سرخےل حضرت عمرؓ ہےں جنہوں نے نطق رسالت سے محدث کا لقب پاےا ہے۔
ایک مرتبہ مقام ابراہےم کو دےکھ کر حضرت عمرؓ نے کہا حضور ہم مقام ابراہےم کو مصلی نہ بنالےں توےہ آےت نازل ہوگئی۔ ترجمہ: مقام ابراہےم کو مصلی بنالو۔ (سورة البقرہ آےة نمبر: 125
احکام حجاب سے پہلے حضرت عمرؓ نے عرض کےا کہ آپ کی ازواج مطہرات کے سامنے ہر قسم کے لوگ آتے ہےں آپ ازواج کو پردہ کا حکم دےں تو ےہ آےت نازل ہوگئی، ترجمہ: جب تم ازواج نبی سے کوئی چےز مانگو تو پردہ کی اوٹ سے مانگو۔ سورة الاحزاب نمبر53
اسےران بدر کے بارے مےں بعض لوگوں نے فدےہ کی رائے دی اس کے مقابلہ مےں حضرت عمر کی رائے قتل کی تھی اور اس وقت رائے عمر پر تنزےل ہوگئی۔ ترجمہ سورہ الانفال آےہ نمبر68: اگر تقدیر الٰہی میں پہلے سے یہ مقرر نہ ہوتا کہ اجتہادی خطا میں مواخذہ نہیں ہوتا تو فدیہ لینے پر تمہےں عذاب ہوتا۔ (مسلم)
)ابوعبداللہ الشےبانی)
مےدان بدر مےں جانے کے لئے حضور نے صحابہ سے مشورہ کےا بعض نے منع کےا اور حضرت عمرؓ نے جانے کا مشورہ دےا اس وقت ےہ آےت نازل ہوئی۔ ترجمہ سورة الانفال آےت نمبر5:تمہارا رب تمہےں گھر سے بدرکی طرف لے گےا اور بے شک مسلمانوں کی اےک جماعت کو ےہ ناپسند تھا۔ (طبرانی)
جانے وہ سمجھ نہ سکی ےا بھول گئی (ابوبکر حصاص)
ملی شعائرکا تحفظ: عہد ابوبکرؓمےں بہت سے قراءاور حفاظ جنگ ےمامہ مےں شہےد ہوگئے اس وقت حضرت عمرؓ سےدنا ابوبکرؓکے پاس آئے اور کہا مجھے خوف ہے کہ اس طرح اےک اےک کرکے کہےں سارے حافظ اورقاری فوت نہ ہو جائےں اور قرآن ہمارے درمےان نہ رہے اس لئے آپ تمام قرآن کو جمع کرکے محفوظ کر دےں۔ حضرت ابوبکر ؓنے کہا مےں وہ کام کےسے کر لوں جسے رسول اللہ نے نہےں کےا آپ نے جواب مےں کہا رب کعبہ کی قسم اس کام مےں خےر ہے۔ آپ ےوں ہی بار بار فرماتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے ابوبکرؓکے دل مےں بھی وہ روشنی پےدا کر دی جو اس سے پہلے عمر کو عطا کی تھی۔ پھر حضرت ابوبکر ؓنے اس عظےم کام کے لئے قراءصحابہ ؓکی اےک کمےٹی مقررکی اور تمام قرآن پاک کو اےک جگہ جمع کرا دےا۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کو جو ملکوتی زبان اور تعمےری فکر عطا کی تھی جس کام کے لئے تمہےں محدث اور ملہم بناےا تھا اسی وصف سے حضرت عمر ؓنے اس موقع پر حفاظت قرآن کی تحرےک کی اور آج جو امت مسلمہ کے ہاتھوں مےں صحےفہ قرآن موجود ہے ےہ صرف عمرؓکی نظرصائب اور فکر راسخ کا ثمرہ ہے۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،