فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ٹیکس وصولیوں کے ہدف کے حصول میں سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑاہے۔ ٹیکس وصولیوں میں ناکامی کی بڑی وجہ گزشتہ مالی سال کا ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرنے کیلئے ایڈوانس ٹیکس وصولیوں کی حکمت عملی ہے جسے اب ایڈجسٹ کرنا پڑ رہا ہے۔ایف بی آر حکام کے مطابق رواں مالی سال کے لئے ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 3621ارب روپے مقرر کیا تھا،جس میں پہلی سہ ماہی کے دوران ایف بی آر کو 685 ارب روپے کی ٹیکس وصولیاں کرنا تھیں، تاہم ایف بی آر محض 625 ارب روپے کی ٹیکس وصولیاں ہی کر سکا جو مقررہ ہدف سے 60 ارب روپے کم ہے۔گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کی نسبت محض 25 فیصد زیادہ ہے، جبکہ حکومت نے ٹیکس وصولیوں میں اضافے کا ہدف 20فیصد زیادہ مقرر کر رکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس بڑی ناکامی کا خمیازہ عوام کو منی بجٹ کے ذریعے نئے ٹیکس لگانے کے حکومتی فیصلے کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری طرف وسائل کی کمی یا مس مینجمنٹ ، صوبائی حکومتوں کے مرکزی بینک سے قرضے ایک کھرب روپے سے تجاوز کر گئے ، خیبر پی کے نے اوور ڈرافٹ کی حد سے 157 فیصد پنجاب نے 44 فیصد زیادہ رقم لی۔ سٹیٹ بنک کی مقرر کردہ حد کے مطابق صوبائی حکومتیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور دوسرے اخراجات کے لئے بینک سے مجموعی طور پر 70 ارب روپے کا اوور ڈرافٹ لے سکتی ہیں، پنجاب کی اوور ڈرافٹ کی حد 37.2 ارب روپے ہے ، تاہم دس ہفتوں کے دوران پنجاب کے مرکزی بینک سے قرضے 53 ارب 62 کروڑ روپے سے تجاوز کر گئے۔ خیبر پی کے کی اوور ڈرافٹ کی حد 10 ارب 10 کروڑ روپے ہے، تاہم رواں مالی سال کے دوران اب تک کے پی حکومت مرکزی بینک سے 36 ارب 3 کروڑ روپے قرض لے چکی ہے۔سندھ حکومت نے اس دوران مرکزی بینک سے 8 ارب 28 کروڑ روپے لیے ، جو اس کی اوور ڈرافٹ کی 15 ارب روپے کی حد سے کم ہیں ، ان کے برعکس بلوچستان نے اس دوران مرکزی بینک سے کوئی رقم نہیں لی بلکہ اس کے 9 ارب 91 کروڑ روپے مرکزی بنک کے پاس پڑے ہیں۔