جب کائنات میں کچھ نہیں تھا رب تعالیٰ کی ذات موجود تھی اور قیامت کے بعد بھی جب ہر شے فنا ہوجائے گی تو صرف میرے رب کی ذات ہی باقی رہے گی۔ میرے رب نے چاہا کہ میں پہچانا جاﺅں تو اس نے ملائکہ کو پیداکیا‘زمین آسمان بنائے اور آدمؑ کو مٹی سے تخلیق کیا۔ آدمؑ کو کچھ عرصے تک جنت میںرکھا گیا‘ پھر منشائے الہٰی سے آدمؑ کوزمین پر بھیج دیا گیا۔ آدمؑ دنیا میں کافی عرصے غم و حزن میں مبتلا رہے‘ پھر جب انہوں نے اپنی آنکھوں سے غم کے پردے ہٹا کر اس حسین دنیا کودیکھا تو ان کے دل میں اس امنگ نے سر اٹھایا کہ اپنے مہربان رب کی اس خوبصورت دنیا کو ہی جنت نشان بنایا جائے پھر آدمؑ نے اس دنیا کو جنت بنانے کےلئے ہرممکن سعی کی‘ پر افسوس آدمؑ کی اس سجائی گئی عارضی جنت کو اولاد آدمؑ نے رفتہ رفتہ جہنم بنا ڈالا اور آج یہ دنیا اپنے باسیوں کےلئے دوزخ سی بنا دی گئی ہے‘ بھوک افلاس اورانسانوں کے مابین ہولناک جنگوں نے دنیا کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ دنیا میں چند ممالک کو چھوڑ کر ہر طرف دہشت ‘ غربت‘ بے روزگاری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ مذہب اور قومیتوںکے نام پرانسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کاقتل عام کررہا ہے‘ ماحولیاتی آلودگی انتہا کوپہنچ چکی ہے۔ د نیا کی ہوا زہریلی اور سمندر کچرے سے بھر چکے ہیں‘ آبی مخلوق اس کوڑے اور گندگی سے جاں بلب ہوچکی ہے تو پرندے اپنے رہنے کے لئے گھنے سرسبز درخت تلاش کرتے پھرتے ہیں‘ مگر انہیں ہرطرف سایہ دار درختوں کی بجائے ٹنڈ منڈ شجر ہی دکھائی دیتے ہیں‘ جس سے یہ معصوم پرندے نقل مکانی پر مجبورہوجاتے ہیں۔ اس سب کے باوجود لوگ اب بھی جینا چاہتے ہیں‘ ظاہر ہے زندگی سب کو پیاری ہوتی ہے‘ جینے کے لئے آدمی ہر جتن کرتا ہے‘ لاکھ مصائب کے باوجود وہ جینا چاہتاہے۔ وطن عزیز میں بھی ہزارہا مشکلات ہونے کے باوجود لوگ جی رہے ہیں اورجینا چاہتے ہیں‘ نہ انہیں صاف پانی پینے کے لئے ملتا ہے‘ نہ ہی سانس لینے کے لئے خوشگوار ہو ا مگر پھر بھی ہرہم وطن کو جینے کی آرزو ہے۔ میرے وطن کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ وسائل بخشے ہیں‘ مگر یہ سارے وسائل ملک کی تمام دولت میرے وطن کے صاحب اقتدار لوگوں کے عیش و آرام کےلئے ہی ہے‘ باقی غریب عوام کے نصیب میں صرف چند سوکھے لقمے کھانے کے لئے اور پینے کے پانی کے نام پر آب زہر دستیاب ہے۔ میرے وطن کے لوگ اس پربھی اس دنیا پر مرتے ہیں اور دنیا سنوارنے کی ہی تمام کوشش میں لگے رہتے ہیں‘ آخرت کی فکرکم اوردنیاکی فکر زیادہ ہے۔ اللہ کا خوف بھی کم اور دنیا کا خوف بہت ہی زیادہ ہے‘ اب یہ دنیا کاخوف دراصل کیا ہے تو دنیا کا خوف یہ ہے کہ آدمی ہر معاملے میں دنیا والوں سے خوف کھائے۔ دین میں توصرف ایک یہ ہی خوف ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ ہو لیکن دنیا کا خوف کئی طرح کا ہوتا ہے‘ مثلاً کوئی شخص جو زیادہ امیر نہ ہو‘ اگر اپنے پہلے بچے کی شادی کرتا ہے تو اسے دنیا کایہ خوف لاحق ہوتا ہے اور وہ ہر دم یہی سوچتا ہے گنجائش تو نہیں ہو رہی ہے‘ زیادہ لوگوں کوشادی میں بلانے کی پر کچھ تو کرنا پڑے گا‘ اسلئے کہ جس کو نہیں بلایا ناراض ہو کر یہی کہتا پھرے گا ”ارے ہماری توہر شادی میں آئے‘ ہم نے ہردفعہ دعوت دی اورانہوںنے ہم کو اپنی گھر کی پہلی شادی میں ہی دعوت نہیں دی‘ حد کردی کنجوسی کی‘ ان سے تو اب تعلق ختم کرناپڑے گا‘ ہم کوئی گرے پڑے ہیں اگر ہم شادی میں جاتے تو کچھ دے کر ہی آتے‘ خالی ہاتھ تھوڑی جاتے‘ اللہ سمجھے ان کو“۔ اب یہ غریب اپنے بچے کی شادی میں چاہے قرض لے لیکن ا پنے تمام جاننے والوں کو دعوت دینے پر مجبور ہوجائے گا‘ بس یہی دنیا کا خوف ہے۔ ہم اس دنیا کے خوف سے گنجائش اور حیثیت نہ ہونے کے باوجود قرض لے کراپنی کوئی جائیداد کو فروخت کرکے اپنی بیٹیوں کوشادی پر خوب ڈھیر سارا جہیز دیتے ہیں کہ اگر یہ خوب شاندار جہیز نہیں دیا تو دنیا کیا کہے گی اور محض یہ ایک شادی کیا ہم اپنے اکثر نجی معاملات میں ”دنیا کیا کہے گی“ سوچ سوچ کر اپنے دل و دماغ میں دنیا کا خوف لئے پھرتے ہیں۔ ماں باپ کے دنیا سے گزرنے کے بعد ان کی اولاد اسی دنیاکے خوف سے رقم نہ ہونے کے با وجود مانگ تانگ کر ماں باپ کا سوئم‘ چہلم بڑی شان سے کرتے ہیں کہ اگرسوئم یا چہلم نہ کیا تو لوگ باتیں بنائیں گے‘ دنیا کیا کہے گی۔ ہم اپنے گھر کی معمولی دعوت میں بھی دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے ہیں اور بعد میں مشکل میں پڑ جاتے ہیں بے جا نمود و نمائش کی عادت ا ور ”دنیا کیا کہے گی“ کہ خوف نے ہماری زندگیوں کو اجیرن کر رکھا ہے مگرہم یہ روش چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں‘ حالانکہ ہم سب ویسے تو بڑی لفاظی کرتے ہیں کہ ہمیں دنیا سے کیا اور ہم دنیاکی پروا کیوں کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم سب دنیا کی بہت زیادہ پروا کرتے ہیں۔ ہم میں سے ہرایک دنیا کا خوف دل میں رکھتاہے کہ” دنیا کیا کہے گی“ یہ عادت اپنا کر ہم نے اپنی دنیا اور دین دونوں کومشکل بنا ڈالا ہے۔ معاذ اللہ آج ہم اللہ سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا دنیا سے ڈرتے ہیں۔
دنیاکا خوف
Oct 03, 2017