میاں نواز شریف کی احتساب عدالت میں دوسری پیشی پر وزیر داخلہ کو احاطہ عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا گیا جس پر وہ بہت برہم ہوئے اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے غصے سے کہا کہ میں وزیر داخلہ ہوں۔ مجھے کیوں روکا گیا ہے۔ وزیر داخلہ کی بے بسی دیدنی تھی۔ قبل ازیں انکے لیڈر میاں نواز شریف کو جب وزارت عظمیٰ کے لئے نا اہل قرار دیا گیا تو انہوں نے جی ٹی روڈ پر آبدیدہ لہجہ میں بار بار استفسار کیا کہ مجھے کیوں نکالا؟ ”مجھ کیوں نکالا اور مجھے کیوں روکا“ اب ضرب امثل کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ہر انسان اپنے اعمال و افعال کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ انسان جب بھی کوئی اچھا یا برا کام کرنے لگتا ہے تو اس کے اندر کا سنسر (Sensor) الارم بجانے لگتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے یا غلطہے۔ عرف عام میں اس سنسر کا نام ”ضمیر ہے“ ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں ”ضمیر“ یا تو بے خبری کی نیند سو رہاہے یا عالم نزاع میں ہے یا پھر اس کی موت واقع ہے۔ آپ سروے کرا کے دیکھ لیں۔ صرف دس فیصد افراد کا ضمیر صحتمند ہوگا ورنہ 90 فیصد لوگوں کے ضمیر کی حالت درج بالا تین صورتوں والی ہوگی۔ میاں نواز شریف اور ان کی فیملی کے حوالے سے کافی کچھ منظر عام پر آ چکا ہے۔ ایک میچور اور ذی وقار سیاستدان کی حیثیت سے میاں صاحب اگر استعفیٰ دیکر عدالت کے سامنے پیش ہو جاتے اور ان تمام شواہد و حقائق کو کھلے دل سے تسلیم کر کے عدالت اور قوم سے معافی مانگ لیتے تو وہ ہیرو بن جاتے اور ہم سب ان کے ساتھ کھڑے ہوتے کہ چلو میاں صاحب سے سنگین غلطیاں ہو گئیں لیکن اب وہ تائب ہو گئے ہیں اور غلطیوں کا ازالہ کرلیں گے لیکن برا ہو ان چاپلوس، خوشامدی، بنیا فطرت اور احمق وزراءاور مشیروں کا جنہوں نے ”پنگا“ لینے کی صلاح دی۔ میاں نواز شریف ہر باری میں اپنے اس قسم کے ناعاقبت اندیش، خود غرض، منافق، عریص اور احمق مشیروں کے ہاتھوں ڈوبے ہیں۔ اس وقت جو کابینہ تشکیل دی گئی ہے وہ بھی مضحکہ خیز ہے۔ اسحاق ڈار پر الزامات اور ثبوتوں کی بھرمار ہے۔ پھر بھی اسحاق ڈار کو قرابت داری کی بنیاد پر وزیر خزانہ میاں نواز شریف کے ایما پر بنایا گیا۔ احسن اقبال وزارت تعلیم یا بہبود آبادی کی وزارت کے لئے تو موزوں ہو سکتے تھے لیکن انہیں اتنی بڑی وزارت دیکر ظلم کیا گیا۔ اگر کوئی وزیر داخلہ ہوتا تو اسے یہ صدا دینا نہ پڑتی کہ مجھے کیوں روکا گیا ہے۔ خواجہ آصف کسی بھی طرح وزیر خارجہ کے لئے اہل نہیں تھے۔ ان پر تو یہ منصب جچتا بھی نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی ایک کامیاب، مدیر اور طاقتور وزیر خارجہ تھے۔ ن لیگ کو آخری دنوں میں کسی کو وزیر خارجہ بنانے کا خیال بھی آیا تو ایک کٹھ پتلی، واجبی علم، کمزور شخصیت کو اتنی بڑی اور اہم وزارت سونپ دی جس کے ایک ہفتہ میں ہی بدترین نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے۔ چین تو چلئے دوست ہے اس نے خواجہ آصف کی کئی خامیوں پر پردہ ڈالے رکھا۔ سعودی عرب میں بھی بچت ہو گئی لیکن امریکہ میں قابلیت کا بھانڈہ پھوٹ گیا۔ یہ سب غلطیاں کرتے تو چند افراد ہیں مگر خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ شریف برادران کی وزارت میں کوئی ایک قابل، ذہین، بہادر، دبنگ اور اعلیٰ تعلیمیافتہ وزیر اور مشیر پیش کرنا مشکل ہے۔ اگر میاں نواز شریف اچھے اور اہل لوگوں کی کابینہ تشکیل دیتے۔ اعلیٰ تعلیمیافتہ، ضمیر پسند اور جوہر قابل مشیر رکھتے تو آج بھی وزیراعظم ہوتے اور انہیں یہ ہرگز نہ کہنا پڑتا کہ مجھے کیوں نکالا۔ آج عدالت نے نواز شریف پر فرد جرم عائد نہیں کی۔ خیال ہے کہ آئندہ ہفتے فرد جرم عائد کر دی جائے گی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شاید عدالت نواز شریف کو پاکستان میں رکنے کا موقع دے رہی ہے لیکن ایک اور بھی بڑی وجہ ہے جس پر بد قسمتی سے بحث نہیں کی جا سکتی۔ حسن، حسین اور صفدر کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کر دیئے گئے ہیں لیکن مریم صفدر کو پھر ایک موقع دیا گیا ہے اور قابل ضمانت وارنٹ جاری کئے ہیں۔ جمہوریت، آمریت، ملوکیت، شہنشائیت میں جو بڑا فرق ہے اس میں جمہوریت کو سراہنے کی وجہ یہ ہے کہ حکمران کی اولاد اپنے باپ کی کرسی نہیں سنبھالتی بلکہ حکمران کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد ہر وہ شخص جو اہل ہو۔ ان تمام شرائط و ضوابط پر پورا اترتا ہو، خواہ وہ انتہائی غریب ہو، کسی چوکیدار یا جمعدار کا بیٹا ہو۔۔۔ وہ صدر یا وزیراعظم بننے کا اہل ہے۔ پاکستان میں جمہوریت ہے اور اسی نام نہاد جمہوریت کے نام پر آمریت کو برا بھلا کہا گیا ہے جبکہ ایوب، یحییٰ، ضیاءاور مشرف دور میں امن و امان رہا۔ مہنگائی اور بیروزگاری کا تناسب انتہائی کم رہا۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات سب سے کم ہوئے۔ معیشت کنٹرول میں رہی اور تعلیم کا معیار بلند رہا۔ ہمارے ہاں جعلی اور روایتی جمہوریت پسند خواہ اس سے لاکھ اختلاف کریں لیکن آپ سچائی کو انک ریموور سے مٹا نہیں سکتے کیونکہ ”سچائی“ کو مٹانے کا ریموور ابھی تک ایجاد بھی نہیں ہوا۔ میاں نواز شریف کے لئے زیادہ مسائل تب پیدا ہوئے جب انہوں نے امور مملکت میں اپنی بیٹی کو دخیل ہونے کی اجازت دی اور اپنے بعد اسے پارٹی کا جانشین بنانے کے علاوہ وزیراعظم بنانے کی خواہش بھی کی۔ پاکستان میں انتہائی زیرک، قابل اور اعلیٰ تعلیمیافتہ خواتین موجود ہیں لیکن وسائل، سرپرستی، مواقع دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بے شمار لائق اور ذہین خواتین کے ٹیلنٹ سے حکومت استفادہ نہیں کرتی۔ اگر کسی میں اہلیت ہے تو وہ منصفانہ اور مساویانہ انداز میں مقابلہ کرے۔ خدمت خلق کے ہزار طریقے ہزار راستے ہیں۔ مریم نواز کے ابو، چچا، شوہر، کزنز (دو درجن) اور تقریباً 56 فیملی ممبرز سیاست اور ایوانوں میں ہیں۔ کیا ضروری تھا کہ وہ بھی سیاست میں جاتیں اور والد کے لئے مشکلات پیدا کرتیں۔ عبدالستار ایدھی، انصار برنی مدر ٹریسا، ڈاکٹر فاﺅ رتھ، ملالہ یوسفزئی کو ساری دنیا جانتی ہے۔ اگر کام کرنا تھا تو دنیا میں کاموں کی بھرمار ہے۔ خدمت صرف وزیراعظم بن کر نہیں ہوتی بلکہ وزیراعظم بن کر تو خدمت ہوتی ہی نہیں۔ وزیراعظم سب سے بڑے عہدے پر ہوتا ہے لیکن کئی کام وزارت عظمیٰ سے بہت زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔