اسلام آباد (نامہ نگار+ وقائع نگار خصوصی + وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر ریفرنسز کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف دوسری مرتبہ پیش ہوئے تاہم ان پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی۔ عدالت نے نواز شریف کے بیٹوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے ناقابل ضمانت جبکہ صاحبزادی مریم نواز کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کرتے ہوئے چاروں ملزمان کو 9اکتوبرکو اگلی سماعت پر گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو 9اکتوبر کو دوبارہ طلب کر لیا ہے اور کہا ہے کہ 9 اکتوبر کو اگلی سماعت پر نواز شریف کا مقدمہ الگ کر کے نوازشریف پر فرد جرم عائد ہوگی۔ پیر کے روز اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے شریف خاندان کے خلاف نیب کی طرف سے دائر تین ریفرنسز کی سماعت کی۔ نیب حکام نے نواز شریف کے بچوں حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے قابل ضمانت وارنٹ کے سمن کی تعمیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ نیب حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ عدالتی حکم پر سمن رائے ونڈ میں ملزمان کی رہائشگاہ پر لگائے گئے۔ ملزمان ملک سے باہر تھے جس کی وجہ سے سمن لندن میں پاکستانی ہائی کمشن بھجوائے گئے اور ان کی رہائشگاہ پر سمن کی تعمیل کرائی گئی۔ نیب پراسیکیوٹر کی طرف سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ سمن کی تعمیل کے باوجود ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہوئے حالانکہ ان کے قابل ضمانت وارنٹ عدالت جاری کر چکی تھی اس لیے ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں، نیب کی طرف سے ملزمان کو انٹرپول کے ذریعے وطن واپس لانے کے لیے مختلف پہلوئوں پر بھی دلائل دیئے گئے تاہم عدالت کو بتایا گیا کہ پاکستان کے برطانیہ کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہو ئے کہا کہ نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی طبیعت ناساز ہے ان کے تین آپریشن ہو چکے ہیں اس لیے حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر ان کی تیمارداری کے لیے لندن میں مقیم ہیں وہ اگلی سماعت پر عدالت میں ضرور پیش ہو جائیں گے اس لیے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری نہ کیے جائیں، ملزمان عدالت میں پیش ہوکر اپنے خلاف دائر ہونے والے ریفرنسز کا سامنا کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے استدعا مستردکرتے ہوئے حسن نواز، حسین اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدرکے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جبکہ مریم نواز کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کر دیئے۔ سماعت کے دوران نواز شریف پر فرد جرم عائد کرنے کا معاملہ آئندہ سماعت تک موخر کردیا گیا، جبکہ نواز شریف کی حاضری سے استثنا سے متعلق درخواست پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔ عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا کہ اگلی سماعت میں نواز شریف کا مقدمہ الگ کر دیا جائیگا، 9اکتوبر کو سماعت میں نوازشریف پر فرد جرم عائد ہوگی، اسکے بعد اگلی کارروائی شروع کریںگے۔ اس سے قبل سابق وزیراعظم ایک قافلے کی صورت میں دارالحکومت میں واقع اپنی رہائش گاہ پنجاب ہائوس سے احتساب عدالت پہنچے تھے، جہاں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ سماعت سے قبل ہی رینجرز کے اہلکاروں نے جوڈیشل کمپلیکس کے مرکزی دروازے پر اپنی ڈیوٹی سنبھال لی تھی اور انہوں نے میڈیا کے ارکان سمیت کسی کو بھی کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ نواز شریف کے ہمراہ مسلم لیگ (ن)کے وزرا اور پارٹی رہنما بھی احتساب عدالت پہنچے تاہم کسی بھی رہنما کو عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، عدالت کے باہر پولیس، رینجرز اور ایف سی کے ایک ہزار جوان تعینات تھے اور عمارت کے ارد گرد خاردار تاریں بچھائی گئی تھیں جب کہ عدالت میں غیر متعلقہ افراد کے داخلہ پر بھی پابندی تھی۔ دوسری جانب میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے احتساب عدالت کے جج بشیرنے کہا کہ انہوں نے نہ تو رینجرز کو بلایا ہے اور نہ ہی انہیں وہاں پر تعینات کرنے کے احکامات دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آئندہ سماعت پر میڈیا کو روکا گیا تو وہ خود صحافیوں کو لینے باہر گیٹ پر آجائیں گے۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے نیب عدالت میں رینجرز کی تعیناتی پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے ماتحت فورس کہیں اورسے احکامات لے کر کام نہیں کرسکتی اور نہ ہی ایک ریاست میں دو ریاستیں چل سکتی ہیں، احتساب عدالت کے باہر رینجرز کی تعیناتی کے معاملے کا پتہ نہ چلا سکا تو وزارت سے استعفیٰ دے دوں گا، حکومت کی رٹ چیلنج کی گئی ہے اس کی تحقیقات ہوں گی۔ وفاقی وزرائ، وکلاء اور صحافیوں کو احتساب عدالت میں داخل نہ ہونے دینے پر عدالت کے باہر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے اندر جانا نوازشریف کے ساتھیوں کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ کے متعدد ارکان کو احتساب عدالت کے باہر روک لیا گیا، آج پیشی کے موقع پر چیف کمشنر اسلام آباد کی نگرانی میں انتظامات کیے تھے تاکہ عدلیہ کا وقار بھی قائم رہے اور مقدمے کا اوپن ٹرائل بھی ہو چیف کمشنر نے مطلع کیا کہ اچانک رینجرز آئی اور علاقے کو اپنی نگرانی میں لے لیا، رینجرز سول انتظامیہ کے ماتحت کام کرنے کی پابند ہے، میں اس صورت حال کا نوٹس لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جب چیف کمشنر نے بھی طے کیا اور میڈیا کے ساتھ معاملات طے ہو گئے ایک فہرست صحافیوں اور وکلا کی بن گئی تو اچانک صبح آٹھ بجے رینجرز نے آکر جوڈیشل کمپلیکس کا کنٹرول سنبھال لیا اور کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کے علاوہ کسی کو اندر نہیں جانے دیا جائے گا اس افسوسناک صورتحال میں میں خود یہاں پہنچا ہوں اس معاملے کا نوٹس لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ احسن اقبال نے کہا رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہے لیکن رینجرز نے کہا کہ ہمارے اپنے قوانین ہیں، رینجرز کے مقامی کمانڈر کو بلایا، وہ وہاں سے روپوش ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ میں 15منٹ تک عدالت کے گیٹ کے باہر کھڑا رہا۔ اگر رینجرز نے حکم عدولی کی ہے تو اس کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہوں گی، اس کو دیکھیں گے کہ حکومتی رٹ کو کس نے چیلنج کیا۔ یہ ایسی چیز ہے جو قابل قبول نہیں۔ احسن اقبال نے کہا میں بطور وزیر داخلہ اس بات کا نوٹس لوں گا، یہاں ایک قانون ہوگا، ایک حکومت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں کٹھ پتلی وزیر داخلہ نہیں بن سکتا، معاملہ حل نہ ہوا تو استعفیٰ دے دوں گا۔ جس نے بھی یہ کام کیا اس کے خلاف انضباطی کارروائی ہوگی۔ ملک اس طرح نہیں چلے گا، میرے ماتحت فورس کہیں اور سے احکامات لے کر کام نہیں کرسکتی اور نہ ہی ایک ریاست میں دو ریاستیں چل سکتیں ہیں۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ رینجرز سول انتظامیہ کے ماتحت کام کرنے کی پابند ہے، نا تو چیف کمشنر نے آرڈر دیا اور نا ہی میں نے۔ تو پھر رینجرز نے کس کے حکم پر مداخلت کی۔ احسن اقبال نے کہا کہ بند کمروں میں ٹرائل مارشل لاء میں ہوتے ہیں، یہ جمہوریت ہے اور جمہوریت میں اوپن ٹرائل ہوتے ہیں۔ دریں اثناء احتساب عدالت میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر وزیرداخلہ احسن اقبال برہم ہوگئے اور اے ڈی سی جی سے کہا یہ بنانا ری پبلک نہیں، بلکہ جمہوری ملک ہے، سول ایڈمنسٹریشن کو بے بس کر دیا گیا۔ انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر سے کہا کہ آپ مجھے ابھی لکھ کر دیں کہ رینجرز نے کیسے ٹیک اوور کیا۔ بعد ازاں وزیر داخلہ میڈیا سے گفتگو کرنے کے بعد وہاں سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چلے گئے۔ بعد ازاں خواجہ سعد رفیق نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا، عدالت میں ہمارے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادتی ہوئی ہے وزیر داخلہ آئے انہیں تو اندر داخل ہونے دیا جانا چاہئے تھا۔ وکلا کو روک دیا گیا وکلاء عدالت میں نہیں جائیں گے تو کون جائے گا۔ یہ احتساب عدالت کے جج اور مانیٹرنگ جج کو سوچنا چاہئے کہ یہ کس قسم کا ٹرائل ہے۔ جب اوپن ٹرائل ہے تو میڈیا اور وکلا کو کیوں نہیں جانے دیا گیا؟ ہمارا تو کوئی مسئلہ نہیں ہمارے ساتھ تو یہ ہوتا آیا ہے اس کے باوجود ہم گرتے ہیں اور پھر کھڑے ہوتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آج جو کچھ ہوا اس کے احکامات بہت اوپر سے نہیں آئے۔ سعد رفیق نے کہا کہ انشاء اللہ یہ حکومت بھی چلے گی اور ملک بھی چلے گا اور ہم اپنی بات کہتے رہیں گے۔ میں نرم انداز میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے باز نہیں آنا اور نہ ہی اپنا موقف بدلنا ہے، باقی لوگوں کو اپنا موقف بدلنا پڑے گا کیونکہ ہم سیدھے راستے پر ہیں۔ پاکستانی قوم کو یہ سب کچھ کر کے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ انصاف نہیں ہو رہا ہے۔ نہ سپریم کورٹ میں انصاف ہوا اور جے آئی ٹی نے تو ظلم کی انتہا کر دی۔ اندر انصاف ہورہا ہے اور میڈیا باہر کھڑا ہے، احتساب عدالت میں نامکمل ریفرنسز پیش کیے گئے، بار بار کہتے رہے انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا، جن کو گاڈ فادر اور مافیا کہا گیا وہ عدالت میں پیش ہورہے ہیں۔ سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس میں داخلے کی اجازت نہ دینا اوپن ٹرائل نہیں بلکہ ہائی جیک ہے، یہ ہائی جیک کس نے کی یہ سپریم کو رٹ بتائے گی، آئین پر عمل کرانا سپریم کورٹ کا کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جمہوریت کے لیے کوششیں کیں اور آج اس کی قیمت ادا کررہے ہیں، یہ قیمت اس وقت تک ادا کریں گے جب تک عوام کو حق نہیں مل جاتا، ایک مجرم بھاگ گیا اور جو مظلوم ہے ان کی گرفت میں ہے اور عدالتوں میں پیش ہو رہا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ اقتدار کسی اور کے پاس ہوتا ہے اور اختیار کسی اور کے، آج وہ اختیار کھل کر سامنے آگیا ہے اور کھلی عدالت کو بند کمرے کی عدالت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اوپن ٹرائل نہیں بلکہ ہائی جیکڈ ٹرائل ہے سپریم کورٹ جواب دے کہ ٹرائل کو ہائی جیک کس نے کیا ہے۔ آئین پر عملدرآمد کرانا سپریم کورٹ کا کام ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار علی خان ہماری مدد نہیں کر سکے پرویز مشرف کی کیا کرتے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے کہا کہ وزارت داخلہ نے نیب عدالت میں داخلے سے روکنے کے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، یہ انکوائری گھنٹوں میں ہوگی اور ان لوگوں کا تعین کیا جائے گا جنہوں نے غیر قانونی احکامات دیئے۔ طلال چودھری کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کا تعین بھی ہوگا جنہوں نے غیرقانونی احکامات مانے، یہ جمہوری حکومت ہے قانون پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ، تین اکتوبر کا دن واضح پیغام دے گا کہ نواز شریف کی لیڈرشپ چھینی نہیں جا سکتی، پارٹی صدارت پر نواز شریف کا انتخاب جمہوریت کے مسبقل کیلئے نیک فال ثابت ہو گا۔ عمران خان کے اپوزیشن لیڈر بننے کی خواہش پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سیاسی سمجھ بوجھ سے عاری عمران خان خود اپنی جماعت کیلئے بوجھ بنے ہوئے ہیں، الیکشن کمشن، احتساب اور پارلیمنٹ کے موضوعات پر عمران کا مؤقف سیاسی ناپختگی کا ثبوت ہے۔ مزید برآں احتساب عدالت نے کورٹ میں رینجرز کی تعیناتی کو قابل ستائش حکومتی اقدام قرار دے دیا۔ عدالتی حکم نامے میں رینجرز کی تعیناتی کا ذکرکیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ کورٹ کے ارد گرد ماحول پرامن تھا، رینجرز سکیورٹی کے لئے تعینات تھے۔ وکلا اور کورٹ رپورٹرز کے عدالت میں داخلے کا معاملہ ریگولرائز کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں نجی ٹی وی کے مطابق رینجرز کی تعیناتی کے معاملے پر وفاقی وزراء احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق میں تلخی ہو گئی۔ سعد رفیق نے کہا کہ احسن اقبال نے احتساب عدالت کے باہر جو انداز اپنایا وہ درست نہیں تھا۔ یہ طریقہ نہیں کہ لٹھ پکڑ لیں اور سب ختم کر دیں یا تو فیصلہ کر لیں کہ اب حکومت نہیں کرنی۔ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہوا اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا تھا ایسی وزارت یا حکومت کس کام کی جس میں عزت نہ ہو۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی احتساب عدالت پیشی کے موقع پر رینجرز کی تعیناتی کے معاملے پر سول حکومت اور عسکری ادارے آمنے سامنے آگئے ہیں۔ چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی (آپریشنز) نے رینجرز کی تعیناتی کے احکامات جاری ہونے سے لاعلمی ظاہر کردی ہے۔ وزیر داخلہ نے سیکرٹری داخلہ کو معاملے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ وزیر داخلہ کے حکم پر سیکرٹری داخلہ ارشد مرزا نے رینجرز کی تعیناتی کے معاملے کی تحقیقات شروع کردی ہے۔ گزشتہ روزچیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی آپریشنز کے بیانات قلمبند کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
اسلام آباد(چوہدری شاہد اجمل)سابق وزیر اعظم نوازشریف 8بجکر 50منٹ پر اسلام آباد کی احتساب عدالت میں اپنے خلاف دائر ریفرنسز کی سماعت کیلئے جوڈیشل کمپلیکس پہنچے، نواز شریف کی گاڑی احتساب عدالت کے مرکزی دروازے سے براہ راست اندر داخل ہوئی ۔ ان کی آمد سے قبل عدالت کے باہرپولیس کی طرف سے لگائے ناکوں کے پاس جمع ہونے والے خواتین سمیت لیگی کارکن نعرے بازی کرتے رہے۔ سخت حفاظتی اقدامات کے باعث سینیٹ میں قائد ایوان راجا ظفر الحق، سابق وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید، وزیرریلویزخواجہ سعد رفیق،وزیر مملکت برائے امور داخلہ طلا ل چوہدری، وزیر نجکاری دانیال عزیز ودیگر لیگی رہنمائوں کو عدالت کے اندر نہیں جانے دیاگیا،راجہ ظفرالحق کچھ دیر اپنی پھر اپنی گاڑی میں بیٹھے رہے پھر واپس لوٹ گئے۔خواجہ سعد رفیق نواز شریف کی واپسی تک اپنی گاڑی میں ہی بیٹھے رہے اور وہیں سے میڈیا سے گفتگو کی ۔ پیشی کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے، لیڈیز پولیس اہلکار بھی تعینات رہیں۔ نواز شریف کی آمد سے قبل ہی پہلے میڈیا اور وکلا کے علاوہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنمائوں وہاں پر موجود تھے۔اس موقع پر جوڈیشل کمپلیکس میں کام ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ ان عدالتوں میں پیشی کے لیے آنے والے سائلین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔عدالتوں کے عملے کو بھی ناکوں پر روک لیا گیا۔ سکیورٹی کے لیے اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کی بھی بڑی تعداد ڈیوٹی پر موجود تھی۔صبح آٹھ بجے کے قریب اچانک رینجرز کے اہلکار وں نے موقع پر پہنچ کر پولیس اہلکاروں کو ایک طرف کرکے خود پوزیشنیں سنبھال کر جوڈیشل کمپلیکس کے مرکزی دروازے کا کنٹرول اپنے پاس کر لیا۔ وزیربرائے داخلہ امور مملکت طلال چوہدری نے اس موقع پرگیٹ پر موجود رینجرز اہلکاروں سے کہا کہ وہ انہیں اندر جانے دیںلیکن رینجرز اہلکاروں نے کوئی جواب نہ دیا ۔اس صورتحال کی اطلاع جب وفاقی وزار نے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو ہوئی تو وہ بھی احتساب عدالت پہنچ گئے اور گیٹ کھلوانے کی کوشش کی وہ 15منٹ تک عدالت کے مرکزی گیٹ پر کھڑے رہے‘ انہیں بھی اندر جانے سے روک دیا گیا۔ وہ رینجرز اہلکاروں سے پوچھتے رہے کہ انہیں کس نے میڈیا ،وکلاء اور سیاسی رہنمائوں کے داخلے پر پابندی کا کہا ہے ،رینجرز اہلکاروں نے بتایا کہ ان کے کمانڈر کا حکم ہے جس پر احسن اقبال نے کہا کہ اپنے کمانڈر کو بلائیں لیکن کمانڈر 15منٹ تک باہر نہ آئے جس احسن اقبال میڈیا سے گفتگو اور اسلام آباد انتظامیہ کے مقامی افسران پر شدیدبرہمی کا اظہار کرکے واپس روانہ ہو گئے۔