واشنگٹن (اے این این ) بین الاقوامی حقوق کا دفاع کرنے والے ایک شخص نے الزام لگایا ہے کہ ایران افغان تارکینِ وطن کے 14 برس تک کے کم عمر بچوں کو بھرتی کرکے انھیں شام میں سرکاری افواج کےساتھ لڑنے کے لیےبھیج رہا ہے، جو بات جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ ایرانی قبرستانوں میں قبروں پر لگے ہوئے کتبوں کی تصاویر کا جائزہ لیا گیا۔، جن میں آٹھ قبریں افغان بچوں کی ہیں، جو بظاہر شام میں لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔رپورٹ میں ایران کے اسلامی پاسدارانِ انقلاب دستے پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ خاص طور پر شیعہ ہزارہ افغانوں کو بھرتی کرکے انھیں حربی تربیت فراہم کر رہا ہے، جو اپنے ملک میں عشروں سے جاری مخاصمت کے پیشِ نظر ایران آ کر آباد ہوئے ہیں۔'ہیومن رائٹس واچ' نے انتباہ جاری کیا ہے کہ ''فاطمی ڈویژن میں 14 برس کی عمر تک کے نوجوان افغان بچے لڑ چکے ہیں، جو خصوصی طور پر ایک افغان مسلح جتھہ ہے جس کی ایران حمایت کرتا ہے، جو شام کے تنازع میں سرکاری افواج کے ساتھ لڑ رہا ہے۔بین الاقوامی قانون کی رو سے، 15 برس سے کم عمر کے بچوں کو بھرتی کرنا اور متحرک مخاصمانہ کارروائیوں میں جھونکنا جنگی جرم شمار ہوتا ہے''۔ایرانی حکام کے مطابق، ملک میں 25 لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجر موجود ہیں، جن میں متعدد کے پاس رہائش کی دستاویزات تک نہیں ہیں۔
افغان بچے