قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے معلومات افشا کرنے کا بل 2017ءکی متفقہ منظوری دیدی

اسلام آباد (خبر نگار) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے مفاد عامہ میں معلومات افشاں کرنے سے متعلق بل 2017 کی متفقہ منظور دے دی،کمیٹی نے سیکرٹری قانون کو سحر کامران کے آئین کے آرٹیکل 228 میں ترمیم کے بل کا جائزہ لینے کی ہدایت کر دی، نوابزادہ سیف اللہ مگسی اور فرحت اللہ بابر نے آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کے بل اگلے اجلاس تک ملتوی کر دئیے گے، آرٹیکل 63 میں ترمیم کی نہ حمایت کرتے ہیں نہ ہی مخالفت، حکام وزارت قانون۔ تفصیلات کے مطابق سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون کا اجلاس گذشتہ روز سینیٹر جاوید عباسی اجلاس کی صدارت میں شروع ہو ا۔ اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ کی نااہلی سے متعلق آرٹیکل 63 میں ترامیم کے دو بل نوابزادہ سیف اللہ مگسی اور فرحت اللہ بابر نے پیش کررکھے ہی تھے۔ قائمہ کمیٹی نے فرحت اللہ بابر اور سیف اللہ مگسی کے آئین میں ترمیم کے بل یکجا کردیے۔ سینٹر سیف اللہ مگسی کا کہنا تھا کہ منی بل اور آئین میں ترمیم کے بل پر پارٹی پالیسی کے برعکس ووٹ دینے پر رکن پارلیمنٹ کی نااہلی نہیں ہونی چاہئے۔ جس پرچیئرمین کمیٹی جاوید عباسینے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل 63 اے برقرار رہنا چاہیے ۔ جس پر وزارت قانون و انصاف کے حکام کا کہناتھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 میں ترمیم کا پارلیمنٹ کو کرنا ہے ہم آرٹیکل 63 میں ترمیم کی نہ حمایت کرتے ہیں نہ ہی مخالفت کریں گے ۔ اجلاس میں سینیٹر سحر کامران کے آئین کے آرٹیکل 228 میں ترمیم کے بل پر غورکیا گیا ۔سحر کامران کا کہناتھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان میں ایک تہائی خواتین تعینات ہونی چاہیں، اسلامی نظریاتی کونسل میں صرف ایک خاتون رکن ہے،سیکرٹری قانون نے چیئر مین کو بتایا گذشتہ سال دسمبر سے اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین کا تقرر ہی نہیں کیا گیا ۔ جس پر چیئرمین قائمہ کمیٹی جاوید عباسی نے کہا کہ جس باڈی کا چیئرمین ہی نہیں وہ باقی چیزوں پر کیا کام کرے گی۔اجلاس میں سینٹر نہال ہاشمی ، سلیم ضیاءسینٹر سیف اللہ مگسی نے کہا کہ کونسل کے قوانین کو چھیڑے بغیر ہی اس کے قوانین کا جائزہ لینا چاہیے ۔ چئیرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ اس امر کو بھی دیکھ لینا چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں اگر نہیں ہے تو کیا اسلامی شرعی عدالت اس کی ضرورت پوری کر سکتی ہے ۔کمیٹی میں مفاد عامہ میں معلومات افشاں کرنے سے متلعق بل 2017 پر بحث بھی کی گئی ۔ وزارت قانون کے حکام نے بتایا کہ جو بندہ اطلاع دے رہا ہے اس کے حوالے سے بھی چیزیں طے کی ہیں۔اگر اطلاع غلط ہوئی تو سیشن جج کیس کو دیکھے گا۔اطلاع درست ہونے کی صورت میں کیس متعلقہ ادارے کے حوالے کیا جائے گا۔جس پر سینیٹر عائشہ رضانے سوال کیا کہ اگر ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے بارے میں کرپشن کی اطلاع دی جاتی ہے تو پھر کیس کس کو بھیجا جائے گا۔جس کے جواب میں وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ اگر کسی ادارے کے ہیڈ کے خلاف اطلاع ہے تو متعلقہ وزارت کے پاس کیس بھیجا جائے گا۔اگر کسی وزیر کے خلاف کرپشن کی اطلاع ہو تو وزیر اعظم کے پاس کیس بھیجا جائے گا۔سینٹر بیرسٹر مرتضی وہاب نے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم کے خلاف کرپشن کی شکایت پر سپریم کورٹ میں کیس جائے گا۔ سینیٹر بیرسٹر مرتضی وہاب کی بات پر کمیٹی میں ارکان کے قہقے لگ گے ۔
قائمہ کمیٹی قانون

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...