میرے تراجم (1)

Oct 03, 2018

30ستمبر بین الاقوامی کتابوں کے ترجمے کا دن تھا اور رشین فرینڈشپ ہاؤس میں اسی سلسلے میں ایک تقریب منعقد ہوئی تھی۔روسی کتابوں اور متعدد کلاسیکل مصنّفین نے ایک دنیا پر گہرا اثر ڈالا۔ پشکن، چیخوف، گورکی، ٹالسائی، دوستووسکی اور اُدھر رابرٹ لوئیس اسٹیونسن،یول ورن، ڈکنز، شیکسپئیر۔۔۔۔کس کس کا نام لیجیے۔ ایک کہکشاں ہے کہ دنیائے ادب کے آسمان پر چھائی ہوئی ہے تو اس سلسلے میں منتظمین کا خیال تھا کہ اس حقیر نے بھی کافی ترجمے کر رکھے ہیں اور آجکل بھی ایک پولش کتاب، جو فلسفۂ سیاسیات کے بارے میں ایک انتہائی آسان اور کمال کی کتاب ہے، کا ترجمہ کر رہا ہے۔۔۔۔بلکہ کر چکا ہے تو اظہارِ خیال کے لیے دعوت نامہ بھیج دیا۔خاکسار نے کچھ یوں اظہار کیا:ترجمے کا سب سے بڑا کریڈٹ تو عرب مسلمانوں کو جاتا ہے جنہوں نے یونانی فلاسفہ کو عرَبی میں ترجمہ ہی نہ کیا بلکہ ایسے ایسے نکتے نکالے اور شامل کیئے کہ ہر علم کو اپنا علم بناتے چلے گئے۔ وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے پاس سب علموں سے بڑا علم قران حکیم کی صورت میں موجود تھا۔۔۔۔۔موجود تو اب بھی ہے مگر ہم تقلید کے نخچیر ہو گئے۔ عربوں کا دنیا پر احسانِ عظیم ہے کہ اُنہیں فرمانِ نبوی ﷺپر عمل کرتے ہوئے علم جہاں سے بھی ملا نہ صرف اُسے حا صل کیا بلکہ اُس کی روشنی میں علم و ہنرکے بے شمار در وا کردیئے۔میرا پیشہ ہی ’’ترجمہ اور ترجمانی ‘‘ کرنا رہا ہے۔ جب میں کسی کی تحریر کو اپنی ہدایات میں پیش کرتا ہوں تو در اصل اُس تحریر کاصوری اورصوتی شکل میں ترجمہ کر رہا ہوتا ہوں۔تاہم اپنے لکھنے کی ابتدامیں نے ترجمے سے ہی کی تھی اور وہ تھا اِشفاق احمد صاحب کا ریڈیو کھیل ’’بھرم‘‘ جس کی ریڈیو ہیئت کو میں نے اسٹیج کی ہیئت میں ترجمہ کیا اور لاہور آرٹس کونسل کے ا سٹیج پر ایک ورکشاپ کی صورت میں کھیلااور پیش بھی کیا۔ یہ تجربہ انتہائی کامیاب گنا گیا ۔لیکن ٹھہریئے۔ انگریزی سے اردو میں ترجمے کی ابتدا میں پہلے ہی کر چکا تھا اور وہ تھا مولئیر کی farce دیٹ سکاؤنڈرل سکیپن That Scoundral Scapin کا ’’فتنہ‘‘ کے اردو ٹائٹل کے ساتھ ترجمہ۔ ترجمہ ہی نہیں کھیل کو اُردو میں ڈھالا تھا یعنی adapt کیا تھا۔ فارس آپ جانتے ہیں ڈرامے کی وہ نوع،یعنی genre یعنی قسم ہے جس میں ہنسانے کے لیے کوئی بھی بے تُکی روا سمجھی جاتی ہے۔اس اخذ کردہ کھیل کا ہاتھ سے لکھا مسودہ میں نے آرٹس کونسل لاہور کی ڈرامہ کمیٹی کو منظوری کے لیے غالباً 1960-61 میں دیا تھا۔ ڈرامہ کمیٹی میں بڑے بڑے جیدا سٹیج پروڈیوسرز اور لکھاری ہوتے تھے جن میں سے صرف ایک کا نام مجھے یاد ہے اور وہ میں آپ کو بتاؤں گا نہیں۔نتیجے میں میرا مسودہ مسترد کر دیا گیا اور مجھے واپس بھی نہ کیا گیا۔ اُن دنوں میں کافی احمق بھی تھا اور قدرے اناڑی بھی۔ آج کل بھی میں تقریباً اُتنا ہی احمق ہوں ۔صرف ایک ہی بات میں ترقی کی ہے اور وہ ہے کہ اب میں اناڑی نہیں ہوں۔بعد میں یعنی صرف چند ماہ بعد ہی مولئیر کا وہی کھیل ایک اور ٹائٹل کے تحت اسٹیج ہُوا جس میں بدیں وجوہ مجھے کاسٹ نہیں کیا گیا تھا ۔ حالاں کہ میں اُسی پروڈیوسر کے کئی اور کھیلوں میں لیڈنگ رول کرتا رہا تھا۔ اُن بزرگ سے بھی میں نے اسٹیج ڈرامے کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور سیکھا اور سب سے اعلیٰ بات یہ سیکھی کہ کبھی کسی کی مجبوری سے فائدہ ہر گز نہیں اُٹھانا، چوری چاہے انٹلیکچوئل ہی کیوں نہ ہو کسی صورت بھی نہیں کرنی۔ جہاں تک حق حلال کی کمائی کا تعلق ہے اُس کا سبق مجھے میرے والد صاحب نے دیا تھا ۔ وہ پنجاب پولیس میں تھے اور ایک دن میرے کسی بچکانہ اصرار پر مجھ سے کہا تھا،’’ بیٹا میں رشوت نہیں لیتا۔ ‘‘1965-66میں پیٹرک ہیملٹن کا کھیلROPE ’’دعوت ‘‘ کے عنوان سے اخذ کیا اور اپنی موٹر سائیکل بیچ کراکیس راتیں لاہور آرٹس کونسل میں اسٹیج کیا جو اگلے برس جشنِ سکھر میں بھی تین راتوں کے لیے کھیلا گیا۔ میں اپنی ٹیم کے ساتھ سکھر نہ جا سکا کیوں کہ سیالکوٹ اور بورے والا کے ڈھلن بنگلے میں مجھے ایک ضروری کام پڑ گیا تھا جسے عرفِ عام میں شادی کہتے ہیں۔خیر سکھر کا نعم البدل اتنا بُرا بھی نہ تھا۔ افسوس یہ ہے کہ برس ہا برس کا ساتھ سن 2014 کی دسمبر میں۔۔۔۔۔خیر ہماری یہی دعا ہے جہاں بھی رہو خوش رہو۔ مصیبت یہ ہے کہ یہ دعا خود ہمیں نہیںلگتی۔ لیکن اللہ مالک ہے دیکھیے کب دن پھریں حمام کے۔ 1969کے جون یا جولائی میںتیسرا adaptation کیا تھا اور یہ بھی ایک سٹیج پلے تھا انگریزی میں اس کا ٹائٹل تھا ’ٹنز آف منی Tons of Money' ۔ اردو میں اس کا ٖٹائٹل ’’مرے تھے جن کے لیے‘‘ رکھا ۔یہ بھی ایک farce تھی۔ اس کا اوریجنل مسودہ مجھے نزہت نے(بعد میں مسز کمال احمد رضوی) دیاتھا کہ اسے adapt کر دوں تا کہ بعد میں اسے اسٹیج کیا جائے۔اُن دنوں میں چھ ماہ کی سنٹرل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے ٹیلیویژن پروڈکشن تربیت کے بعد لاہور میں قسمت آزمائی کر رہا تھا۔اس کھیل کا پہلا مسودہ تیار ہو گیا تو مجھے پی ٹی وی سے پروڈیوسر کی جاب کی آفر آگئی۔ میں نے مسودہ اپنے دو عدد دوستوں کے سپرد کیا کہ اس کوا سٹیج کر لیں۔ دوستوں نے میرے مسود ے کا ٹائٹل بھی بدلا اور ترجمہ یا adaptation کرنے والے کا نام بھی بدلا اور کھیل اسٹیج کر کے چار پیسے بنا لیے اور التزام یہ رکھا کہ مجھے خبر بھی نہ کی۔یہ بات پھر ثابت ہو گئی کہ میں نہ صرف احمق تھا بلکہ بیوقوف بھی تھااور شاید مرتے دم تک رہوں ۔ ع دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک ۔ پھر ایک بہت لمبا عرصہ ترجمے کے لحاظ سے خاصا سست گزرا۔ اتنا عرصہ میں اپنے اور دوسروں کے اوریجنل یعنی طبع زاد اوراخذ کردہ ڈراموں کوٹی وی کی اسکرین کے لیے’’ترجمہ ‘‘ کرتا رہا یعنی پروڈیوس کرتا رہا اور ہدایات دیتا رہا۔ اس عرصے میں کرکٹ پر ایک ٹیکنیکل کتاب How to score a Century بھی ترجمہ کر دی۔ اس کے مصنف ہیںChistopher Sly۔رضویہ کالونی کے باہر ایک ٹھیلے والے سے ستر یا اسی کی دہائی میں خریدی تھی ۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پھر وہ کتاب میں نے ’’آئیے سنچری اسکور کریں‘‘ کے نام سے شائع بھی کر دی،آہ اُن دنوں میرے پاس اُجاڑنے کے لیے ساٹھ ستر ہزار روپے تھے!سو اجاڑ دئیے۔گویا میں جب بھی احمق ہی تھا۔ ایک انگریزی کھیل کو پنجابی اور اردو میں ترجمہ کیا۔ یہ دو ایکٹ کا ایک نیم مزاحیہ ڈرامہ ہےIn Confidence اور لکھا ہوا ہےPeter Coke کا۔ایک لمبی لسٹ ہے:شیکسپئیر کا رچرڈ تھرڈ، فلپ کنگ اور فاک لینڈ کیری کا بلی چوہے کا کھیل ،روسی کھیل دی لاسٹ اپوائنٹمنٹ جو’ والید لین دوستوورتسوف‘ کا لکھا ہوا ہے۔ یہ کھیل پی ٹی وی سے بھی نشر ہُوا تھا اور مرکزی کردار شبیر جان، محمود اختر اور میں نے کیئے تھے۔ Thornton Wilde کا کھیل The Happy Journey ترجمہ کیا اور ٹائٹل دیا ’’ سُہانا سفر‘‘۔ ہیٔت کے لحاظ سے بہت خوبصورت کھیل ہے۔ یہ ایک سفر کی داستان ہے جو ایک کار میں طے ہو رہا ہے۔ اسٹیج پر چار کرسیاں ہیں جو کار کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ (جاری ہے )

مزیدخبریں