’’آمریت کا حسن ‘‘کالم چھپنے کے بعد مجھے معزز قارئین کی طرف سے دو ’’رسپانس‘‘ ملے ایک تو خواتین کی ان نشستوں کے بارے میں اور اس سے ہونے والے نقصان کے بارے میں ذرا تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ دوسرے جنرل مشرف کے دوسرے بڑے یا برے فیصلے کے بارے میں کوشش کر کے اپنے قارئین تک جلد بات پہنچانے کا کہا گیا۔ کسی زمانے میں میری بھی یہ سوچ ہوتی تھی کہ اہم موضوع پر جلد اپنا نقطہ نظر پیش کر دوں مگر بقول احمد فراز نہ ہمارے حالات بدلتے ہیں اور نہ ہی میری غزلیں یا نظمیں پرانی ہوتی ہیں۔ مشرف کے اس دوسرے بڑے فیصلے سے ہونے والے نقصانات میں اس کالم کے جلد چھپ جانے سے کمی نہیں ہو گی اس لئے میں نے گورنرز ہائوس کو میوزیم بنانے ا ور پرائم منسٹر ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کے حکومت کے عاجلانہ فیصلہ پر لکھنا ضروری سمجھا۔ گورنر ہائوس پر تو میرے خیالات آپ تک پہنچ چکے مگر وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے میں جو غیرمعقولیت نظر آئی اس پر لکھ کر بھی میں نے مشرف کے دوسرے برے فیصلہ یعنی الیکٹرانک میڈیا کی مشردم گروتھ کا جرم کرنے پر لکھے جانے والے کالم کی اشاعت ضروری سمجھی کیونکہ اس سے یونیورسٹی بننے کے فیصلے سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ وزیراعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا یہ انوکھا فیصلہ کرتے وقت اگر حکمرانوں کے ذہن میں اتنا ہی آ جاتا کہ کیا وزیراعظم ہائوس کی تعمیر کسی عالمی معیار کی یونیورسٹی کی کاپی ہے کیا ہمارے ہاں اپنے قد آور ماہرین تعلیم میں علماء اور دانشور ہیں کہ اگر ان کو ا یک تعلیمی ادارے میں اکٹھا نہ کیا گیا تو پاکستان جامعہ ازہر جیسی مادر علمی سے محروم ہو کر ملک و ملت کی آبیاری کرنے سے محروم ہو جائیگا اور بے وسیلہ قوم فوری طور پر ایسی یونیورسٹی تعمیر نہیں کر سکتی ۔ سکالرز کا ا یک ا یک دن قیمتی ہے اس لئے وسیع تر قومی مفاد میں وزیراعظم ہائوس کو خالی کر کے فوراً یہاں آکسفورڈ، کیمبرج، برکلے، ہارورڈ یا جانز ہاپکنز جیسی یونیورسٹی بنا دی جائے کیونکہ متذکرہ یونیورسٹیوں میں سے اگر کوئی بھی کسی پرائم منسٹر ہائوس ، کسی صدارتی محل کسی بڑے قومی ورثہ کی عمارت میں قائم نہ ہونے پر اگر اتنی ممتاز ہو چکی ہیںتو ایک مشہور عمارت میں قائم یونیورسٹی جلد ہی مشہور ہو جائیگی اس سے پہلے جب شہباز شریف نے لاہور کے وزیر اعلیٰ ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھاتو یہ بات سمجھ آتی تھی کہ اپنے پیش رو وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے بنائے ہوئے وزیر اعلیٰ ہائوس میں جا کر بیٹھنا وہ اپنی توہین سمجھتے تھے اور سیاسی رقابت میں ہر وہ نشان مٹا دینے کا عزم کئے بیٹھے تھے جو کسی بھی طرح چودھری پرویز الٰہی سے جڑا ہو۔وزیر آباد کا کارڈیالوجی ہسپتال تیار ہونے کے باوجود پانچ سال تک چالو نہ کر کے شہباز شریف نے یہ بتا دیا کہ سیاسی رقابت کیا ہوتی ہے۔ وزیراعظم ہائوس کا ا گر کوئی مصرف نہیں سمجھ آتا تو بھی یونیورسٹی کے لئے نہ اس کی جگہ موزوں ہے اور نہ ہی عمارت ۔ وزیراعظم اس فیصلے میں اپنی انا کی پرورش سے گریز کریں۔
اب مشرف کے ان دو فیصلوں کے بارے میں مجھے سب سے زیادہ حیرت تو اٹھارویں آئینی ترمیم کا کریڈٹ لینے والے سنیٹر رضا ربانی پر ہوتی ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے پیپلز پارٹی کو سندھ کی حد تک کنفرٹیبل کرنے کے لئے اپنی جماعت کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے آئین کو تو تہس نہس کر دیا انہیں یہ ا نتہائی آمرانہ اختیار جس کے استعمال کے لئے فوجی وردی بھی ضروری نہیں حکومت میں ہونا بھی ضروری نہیں، صرف کسی سیاسی جماعت کا سربراہ ہونا ضروری ہے اور پھر ا س سربراہ کو اپنی جماعت کی پارلیمنٹ میں جیتی جانے والی نشستوں کے ایک تہائی کے برابر خواتین کو پارلیمنٹ کا ممبر بنانے کا اختیار۔ یہ اختیار تو پوری دنیا میں کسی بھی ملک میں کسی حکمران یا سیاسی جماعت کو حاصل نہیں یہ کونسی جمہوریت ہے۔ آمریت کی بدترین پریکٹس کے بعد معرض وجود میں آنے والی پارلیمنٹ ملک کے کس طبقہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے اس اپوزیشن لیڈر پر جو اٹھتے بیٹھتے پارلیمنٹ کی بالادستی چاہتے تھے۔ شاہ صاحب جس میں ایک تہائی وہ ارکان ہوں جنہیں نہ عوام نے منتخب کیا ہو نہ سیاسی جماعتوں نے ، ایک پارٹی لیڈر کے کہنے پر جو اتنی اہم اور ذمہ دارانہ پوزیشن کی حقدار ہو جائیں کسی پارلیمنٹ کی یہ ساخت مثالاً ہی پیش کر دیں ۔ افسوس تو ہوتا ہے چودھری اعتزاز احسن، ایس ایم ظفر، وسیم سجاد اور پائے کے وکلاء پر جو آئین ماہرہیں کہ آئین میں یہ تبدیلی کیسے برداشت کرتے ہیں اور تو اور بابر اعوان اور نعیم بخاری کوئی بھی نہ بولا کسی ظفر علی شاہ کو خیال نہ آیا کہ اس پر آواز بلند کرنا ہی اصل جمہوریت ہے۔
صحافت تو چونکہ رہنمائی کے کلیدی فرض سے بوجوہ تائب ہو چکی ہے۔ انفارمیشن میں مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کی آمیزش کے بعد صحیح اطلاعات اپنے قارئین اورناظرین تک پہنچانے سے ہاتھ کھینچ چکی ہے ا ور صحافت کے تیسرے کردار تفریح کا گرتا ہوا معیار بھی صحافت کے اس شعبہ میں صحافیوں کیکافی حد تک سرنڈر کرنے کا حوالہ بن چکا ہے۔
الیکٹرانک میڈیا میں چینلز وہ چلا رہے ہیں جنہوں نے اظہار کا اچھا قاری ہونے کی شہرت بھی حاصل نہ کی تھی۔ ایسے لوگوں کو لائسنس دئیے گئے جو صحافت کی ابجد سے بھی واقف نہیں کم از کم ایسا کرتے صحافت سے وابستگی کی شرط تو ضروری ہوتی۔ ایڈیٹر کا دفتر ختم ہونے کے بعد لائسنس دینے والوں کے لئے بہت آسان تھا۔ ریوڑیاں بانٹنے والے بھی اس طرح نہیں بانٹتے اپنے اپنے کاروبار کو تحفظ دینے‘ ملک میں انتشار پھیلانے‘ بلیک میل کرنے کی اپنی طاقت بڑھانے‘ حکومت سے ناجائز کام کرانے اور لوگوں میں گمراہی پھیلانے، مذہبی ، قومی ، اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنے غیرضیکہ کونسی ایسی کسر رہ گئی ہے جو یہ میڈیا پوری نہیں کر رہا۔ اگر عمران خاں کی حکومت واقعتاً پاکستان بدلنا چاہتی ہے یا اس کے بعد جو بھی پاکستان کوقائد اعظم اور علامہ اقبال کی سوچ کے قالب میں ڈھالنا چاہے گا قدم اول کے طور پرخصوصی نشستوں کی سلیکشن کو ختم کرنا ہو گا اور یہ چینلز بند کرنا ہونگے جو کسی بھی طور اپنے وجود کو برقراررکھنے کا جواز نہیں رکھتے۔