ایک دوست ”چودھری صاحب“ بہاولنگر شہر کے نواح میں ایک گاﺅں کے زمیندار تھے، گزشتہ دنوں اُن سے ملاقات ہوئی تو علم ہوا کہ اب وہ پکے پکے لاہور شفٹ ہو گئے ہیں، ہوا کچھ یوں کہ آبادی بڑھنے کے بعد اُن کی زمین چونکہ اب شہر کے قریب تر ہو چکی تھی اس لیے ہر ایرا غیرا ، اللا تللامفت کے بھاﺅ تاﺅ معلوم کرنے کے لیے اُن کے پاس چلا آتا تھا۔ چودھری صاحب کی چونکہ وہ جگہ آباﺅ اجداد کی تھی اس لیے وہ کسی خریدار کو ”لفٹ“ ہی نہیں کرواتے تھے۔ایک دن اُنہیں کورٹ کی جانب سے بلاوا آیا وہاں جا کر علم ہوا کہ چودھری صاحب کی جگہ کے جعلی کاغذات کی مصدقہ کاپی جج صاحب کی ٹیبل پر پڑی ہے اور چودھری صاحب پر الزام ہے کہ انہوں نے مذکورہ رقبے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ مقدمہ چلا، چوہدری صاحب نے ایک آدھ جگہ رقبہ بیچا اور اچھے خاصے پیسے لگا کر کیس جیت تو گئے۔ مگر اس کام کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ادھ موئے ہوگئے۔ اس دوران اُن کی بیوی چل بسی تھی ، انہوں نے سوچا کہ دشمن داری بڑھ چکی ہے اس سے پہلے کہ کیس ہارنے والی پارٹی دوبارہ سر اُٹھائے انہوں نے علاقے کی ”تگڑی“ پارٹی کو جگہ نسبتاََ سستے داموں بیچ دی اور ”پکے پکے“ لاہور آگئے۔اُن کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ایک بیٹی کی شادی ہو چکی جبکہ ایک بیٹی لاہور میں پڑھتی ہے۔ اور بیٹا بھی لاہور ہی کے کسی کالج میں پڑھتا ہے۔ انہوں نے مختصراََ کہا کہ ”چودھری صاحب پاکستان میں رہ کر یا تو بدمعاشی کر لو یا ان بچوں کی اچھی تربیت کر لو، دونوں کام ایک ساتھ نہیں ہو سکتے“ ۔
یہ پاکستان میں ایک چھوٹے سے کیس کی مثال ہے۔ اس طرح کے کم و بیش 12سے 15لاکھ چھوٹے بڑے کیسزعدالتوں میں چل رہے ہیں، جو نسل در نسل منتقل ہو رہے ہیں مگر مجال ہے کہ اس معاشرے میں ظالم اور مظلوم کی پہچان ہو سکے۔ حقیقت میں یہ قبضہ گروہ ہوتے کیا ہیں؟ یہ کیسے کام کرتے ہیں؟ یہ بات جاننے کے لیے قارئین کے لیے اتنا جاننا ضروری ہے کہ سرکاری مشینری اور سیاسی اثرو رسوخ کے بغیر آپ ایک چھوٹی سی جگہ پر بھی قابض نہیں ہوسکتے۔دراصل قبضہ گروپ ایسے اشخاص یا ٹولے کو کہا جاتا ہے، جو زبردستی یا غیر قانونی طور پر یا قابل اعتراض ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے، کسی وسیلے (عام طور پر زمین کے کسی ٹکرے) پر قبضہ کر لیں۔ زمین ہتھیانے کی اس غنڈہ گردی کے لیے انگریزی سے ماخوذ ”لینڈ مافیا“ کی اصطلاح بھی مروج ہے۔ عام طور پر قبضہ کا نشانہ سرکاری اراضی بنتی ہے، جیسا کہ پارک، سبز فضائ، ریلوے کی ملکیتی زمین وغیرہ۔ اس کے علاوہ یتیموں، بیواﺅںکی زرعی اور رہائشی زمین پر قبضہ بھی سننے میں آتا رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اکثر یہ کسی سطح پر سرکاری اہلکار یا سیاسی رہنماءکی ملی بھگت سے کیا جاتا ہے۔ حالات اتنے سنگین ہو چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کو اب اس پر نوٹس لینا پڑ گیا ہے۔
بقول حکومت کے اسلام آباد میں نئی حکومت آنے کے بعد 6،7سو ارب روپے کی زمینیں واگزار کروالی گئی ہیں۔ جس کے بعد پنجاب حکومت نے بھی قبضہ مافیا کے خلاف گرینڈ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ضلعی انتظامیہ کی طرف سے جاری اعداد و شمار کے مطابق گرینڈ آپریشن میں 31687 کنال سرکاری اراضی کو واگزار کروایا جائے گا۔ اس اراضی میں محکمہ جنگلات کی 35 ایکڑ اراضی، والڈ سٹی اتھارٹی کے 8پلاٹ، ایل ڈی اے کی 636 کنال اراضی، ایم سی ایل کے 2 ارب روپے مالیت کے 32 پلاٹ شامل ہیں۔ محکمہ جنگلات کی واگزار کرائی جانے والی زمین پر 50ہزار پودے لگائے جائیں گے، شہر کے بازاروں میں عارضی و پختہ تجاوزات کو بھی ہٹایا جائے گا۔ایل ڈی اے، ایم سی ایل اور والڈ سٹی کی طرف سے قابضین کو نوٹس ارسال کردئیے گئے ، تجاوزات و قبضہ کی ہوئی جگہوں پرنشان بھی لگا دیئے گئے ہیں اور جوہر ٹاﺅن جیسے علاقوں میں آپریشن کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ قبضہ مافیا کی صفوں میں ہلچل بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بہت سے گروپ ایکٹو ہو چکے ہیں۔ غیر قانونی کمرشل پلازوں کے مالکان نے خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں۔ لاہور میں تو بیشتر رقبوں پر عمارات، مارکیٹیں اورٹرانسپورٹ اڈے قائم ہیں سڑکیں تنگ ہو گئیں، فٹ پاتھ اور گرین بیلٹ کا تصور ختم ہوکر رہ گیا سڑکوں پر ٹریفک کا اژدھام اور لاقانونیت اسی کا نتیجہ ہے مگر اب بھی صورت حال کو کنٹرول نہ کیا گیا ناجائز قبضے نہ چھڑائے گئے تو حالات کوئی نیا رخ اختیار کر سکتے ہیں تاہم یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ قبضہ گروپوں اور تجاوزات کے خلاف بلا امتیاز آپریشن موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے اب اس پر عمل درآمد کا وقت آگیا ہے جس کی شروعات پنجاب سے کی جا رہی ہیں۔ جلد ہی یہ دائرہ کار پورے ملک تک پھیلایا جانا چاہیئے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے لاہور میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس کے موقع پر قبضہ مافیا اور تجاوزات کے خلاف گرینڈ آپریشن کی منظوری دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں متذکرہ آپریشن بلا امتیاز طاقتور مافیا سے شروع کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے تاہم اس سے پہلے بھی کئی حکومتوں کے دوران ایسی کوششیں کی گئیں لیکن قبضہ مافیا نے کسی کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے متعلقہ عدالتوں کو قبضہ گروپوں اور تجاوزات کے بارے میں حکم امتناعی کا اجرا روکنے کے بعد متذکرہ آپریشن جو انتہائی طاقتور افراد کے خلاف ہونے جا رہا ہے۔ یقیناً حکومت نے اس کیلئے ہوم ورک مکمل کر لیا ہو گا یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے مہم کو ہر صورت کامیاب بنانے کیلئے متعلقہ اداروں کو بھی مضبوط کو آرڈی نیشن سے کام لینے کی ہدایت کر دی ہے۔ یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ کسی کو خاطر میں لائے بغیر قانونی تقاضوں کے مطابق یہ آپریشن آخری قبضہ ختم ہونے تک جاری رکھا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک کو قبضہ مافیا اور تجاوزات سے ہمیشہ کیلئے پاک کرا لیا جائے گا۔
میرے خیال میں حکومت کو اور خاص طور پر عدلیہ کو اس حوالے سے ایسا مربوط سسٹم بنانے کی ضرورت ہے، کہ زمینی ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہو جائے اور اس جھنجھٹ سے ہی نجات مل جائے۔ کیونکہ ہوتا یہ ہے کہ پہلے کوئی شخص کسی کو کوئی جگہ بیچتا ہے پھر واپس ہتھیانے کیلئے تحصیلدار یا پٹواری کو رشوت دے کر نئے کاغذات بنوا لیتا ہے اور پھر مذکورہ شخص پر جھوٹے کیس بنوائے جاتے ہیں اور اس شخص کو کیسز میں الجھا کر جگہ کو ہتھیانے کی سازش کرتے ہیں۔ جگہ کے اصل مالک کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے جس وجہ سے بعض اوقات معاملات قتل تک جا پہنچتے ہیں۔ ایک غریب اور بوڑھا انسان تو ویسے ہی اتنی بھاگ دوڑ کی سکت نہیں رکھتا اور ساکھ بچانے کیلئے بالآخر ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت جانتا ہے۔ اس کے علاوہ نئی بننے والی پرائیویٹ سوسائٹیز میں بھی کچھ دھوکے بازوں کے گروہ جعلی کاغذات دکھا کر مکان کی قیمت حاصل کر کے فرار ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے قبضہ مافیا سے جان چھڑانے جائیداد اور زمین سے متعلقہ مسائل کے حل کیلئے موثر اقدام کئے جانے کا اگر حکومت نے واقعی سوچ رکھا ہے تو یہ یقینا کسی نعمت سے کم نہیں ہوگا۔ کیوں کہ چوہدری صاحب جیسے کئی لوگ مجبوراََ اسی لیے اور فقط عزت کی خاطر اپنے آباﺅ اجداد کی جائیدادیں چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اُنہیں اس سسٹم پر اعتماد نہیں ہوتا، انہیں علم ہوتا ہے کہ یا تو بدمعاشی سے اُن کا ”رقبہ“ بچ سکتا ہے یا فروخت کرکے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ لہٰذا قبضہ مافیا کی صفوں میں ہلچل رہنی چاہیے اور ایسے اقدام کیے جانے چاہئےں کہ قبضہ گروپ کا سرے سے خاتمہ ممکن ہو سکے۔