قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ مجھے اختیارات دیں تو 3 ہفتوں میں لوٹی ہوئی دولت واپس لے آؤں گا۔
لاہور میں تاجروں اور صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ قومی احتساب بیورو عوام دوست ادارہ ہے، منی لانڈرنگ اور بزنس میں بہت فرق ہے اور سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ کے بہت سے کیسز ہمارے حوالے کیے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کے ادارے کی ضرورت نہیں رہتی اگر آج ہر پاکستانی عہد کرلے اور اپنی خود احتسابی شروع کردے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں غریب کی حالت دیکھ لیں اور مہنگائی کا عالم دیکھ لیں تو اس میں کوئی ایسا کردار نہیں جو نیب نے ادا کیا ہو، اشارے بتارہے ہیں کہ حالات بہتری کی جانب جارہے ہیں۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ یکطرفہ احتساب کے الزامات بھی لگائے جارہے ہیں، کچھ لوگ 35 سال مسند اقتدار پر رہے اور کچھ لوگوں کو آئے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں میں احتساب کہاں سے شروع کروں گا۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ایک بات یاد رکھیں کہ پاکستان میں کوئی ایسا شخص یا ادارہ نہیں ہوگا جس نے کچھ غلط کیا ہو اور نیب کے علم میں ہو جبکہ نیب اس کے خلاف کارروائی نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 سال اور گزشتہ چند مہینوں میں ایسا ہوا کہ جن لوگوں کی جانب کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا، وہ بھی اب سوالات کے جوابات دے رہے ہیں، کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے، بہت پہلے کہہ دیا تھا جو کرے گا وہ بھرے گا۔
چیئرمین نے کہا کہ چند کیسز میں تاخیر ہوئی لیکن ہر چیز نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2، 3 روز پہلے ایک پروگرام دیکھ رہا ہوں اس میں کچھ لوگوں نے کہا کہ ’نیب نے آج تک کیا کیا ہے؟ سعودی عرب کی مثال نیب کے سامنے نہیں ہے؟ انہوں نے ہوٹل میں کرپٹ افراد کو رکھا اور انہوں نے 4 ہفتے میں واجبات ادا کردیے‘۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ ’مجھے 4 گھنٹے کسی کو غیر قانونی طور پر رکھنے کی اجازت نہیں، وہاں بادشاہت ہے جو کہہ دیتے ہیں قانون بن جاتا ہے، میں نے اگر آج کسی کو گرفتار کیا ہے تو مجھ پر یہ لازم ہے کہ 24 گھنٹے میں اسے عدالت میں پیش کروں‘۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ ’آپ مجھے وہ اختیارات دے دیں سعودی عرب نے 4 ہفتے لیے تھے میں کہتا ہوں 3 ہفتے دے دیں میں یہ کرکے دکھادوں گا، معمولی باتوں پر بھی نیب کو مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ ایک جانب نیب ہے تو دوسری جانب انتہائی طاقتور مافیاز ہیں‘۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے تاجر برادری سے خطاب میں کہا کہ اقبال زیڈ احمد کے 6 ماہ سے زیرِ حراست ہونے کی بات درست نہیں، انہیں گرفتار ہوئے 2 ماہ بھی نہیں ہوئے، ان کی صحت سے متعلق آگاہ ہوں اور براہ راست و بالواسطہ مذاکرات چل رہے ہیں کہ انہیں کس طریقے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ فراہم کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقبال زیڈ احمد سے متعلق ایک ایک لمحے کی خبر ہے، ان کی خدمات، جو وہ نہیں کرسکے اور جو نہیں کرنا چاہیے تھا اس کا بھی علم ہے۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ منی لانڈرنگ ٹیکس چوری ہے، ایسا ہرگز نہیں بلکہ یہ ایک جرم ہے، انسداد منی لانڈرنگ کے قوانین موجود ہیں اور نیب نے ٹیکس چوری کا کوئی کیس نہیں لیا۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ فرض کریں ٹیکس چوری کا کیس تھا تو قومی احتساب بیورو کو کبھی بھی غیر ضروری طور پر اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرنے کا شوق نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے بتائیں کس مرحلے پر ہم نے کیا غلطی کی، اکتوبر 2017 سے پہلے کے ٹیکس چوری کے مقدمات کی فہرستیں منگوائی تھیں وہ تمام کیسز ہم واپس لے رہے ہیں۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ اگر صرف ٹیکس چوری کے مقدمات ہوتے تو مختلف عدالتوں سے ہمارے پاس نہ آتے، یقین دہانی کرواتا ہوں کسی ٹیکس چوری کا کوئی کیس ہوا تو ہم فیڈرل بیورو آف ریونیو کے حوالے کریں گے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ جب تک بینک کیس نہ بھیجے تو بینک ڈیفالٹ کیسز میں کبھی نیب نے براہ راست مداخلت نہیں کرتا، بینک اس وقت کیس بھیجتا ہے جب فریقین کے ساتھ اس کے مذاکرات مکمل طور پر ناکام ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج تک کسی تاجر کے خلاف بینک کا کیس شوقیہ نہیں لیا، کسی بھی تجارت کے لیے تاجروں اور بینک کا چولی دامن کا ساتھ ہے، تاجر قرض لیتے ہیں اسے استعمال کرتے ہیں اور واپس کرتے ہیں یہ معاہدہ تاجر اور بینک کے درمیان ہوتا ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ جب تاجر اپنے وعدے کو پورا نہیں کرتے تو اس صورت میں بینک تاجر کے خلاف بینکنگ کورٹ چلا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی قوانین کے تحت سزا اور جزا عدالتوں کا کام ہے نیب جو بھی مدد کرسکا کرے گا۔
چیئرمین نے کہا کہ پاناما کے باقی مقدمات بھی چل رہے ہیں، کچھ کیسز میں معلومات جلدی آگئیں اس پر جلد فیصلہ کیا گیا جبکہ کچھ کیسز چل رہے ہیں۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ہر انسان قول و فعل کے لیے اپنے رب کے سامنے جوابدہ ہے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 35 سالہ بے داغ جوڈیشل سروس کے بعد میں کوئی ایسا اقدام اٹھاؤں گا جو کسی کی خوشنودی کے لیے ہوگا؟
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ نیب کی حکومتِ وقت کے ساتھ کوئی وابستگی ہے تو وہ 100 فیصد غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے وابستگی رب کے ساتھ اور پھر پاکستان کے ساتھ ہے اور اس وقت ملک کو ترجیح نہ دی جائے تو یہ زیادتی ہے، ہم سب پر ملک کا قرض ہے۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ ’ آپ کبھی تصور میں نہیں لاسکتے تھے کہ فلاں فلاں نیب کے سوالات کے جوابات دے گا، نیب کی تحویل میں ہوگا اور عدالتوں کا سامنا کرے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں بہت مافیاز ہیں، ایسے ایسے مافیاز اور ایسی ایسی داستانیں موجود ہیں کہ یہ ملک اقتصادی طور پر کسی وجہ کے بغیر مفلوج نہیں ہے، ہم 100 ارب ڈالر کے مقروض ہیں۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ جنوبی پنجاب کو دیکھ لیں یہ 100 ارب ڈالر کہاں استعمال ہوا، ہسپتالوں کی حالت دیکھ لیں ایک بستر پر 4، 4 مریض ہیں، ان طلبا کو دیکھ لیں جنہوں نے فیسیں دیں اور انہیں داخلہ نہیں ملا اور جب نیب کارروائی کرتا ہے تو اسے غلط کہا جاتا ہے۔
تحقیقات میں تاخیر سے متعلق جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ’وائٹ کالر کرائم لاہور سے شروع ہوتا ہے، اسلام آباد پہنچتا ہے، اسلام آباد سے دبئی اور دوسری ریاستوں میں چلا جاتا ہے اور ایک صبح آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ تمام جائیداد اور فارم ہاؤس تو یورپ یا برطانیہ یا امریکا یا آسٹریلیا میں موجود ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ جب دوسرے ممالک سے اطلاع مانگنے جاتے ہیں اور ایک ہاتھ میں کشکول ہے تو آپ کس طریقے سے وہاں برابری کی بنیاد پر بات کریں گے، برابری کی بنیاد پر بات کر ہی نہیں سکتے اس کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کے ساتھ معاہدہ ہو‘۔
چیئرمین نیب نے کہا کہ ’ایک بہت بڑا شخص جن کا تعلق لاہور سے ہے 80 اور 90 کی دہائی میں لوگوں نے انہیں ہونڈا کی موٹر سائیکل پر دیکھا لیکن اس وقت دبئی میں ان کے ٹاورز اور پلازے ہیں، یہ کہاں سے آئے؟ اب جب ان کو واپس لانے کی کوشش کی تو ایک چھوٹی سی عدالت نے حکم امتناعی دے دیا ہم انہیں واپس نہیں لاسکے‘۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ ’میں تاخیر کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں میں احتساب کے لیے موجود ہوں لیکن کسی ثبوت کے ساتھ یہ ثابت کردیں کہ کوئی عمل دھوکہ دہی پر مبنی تھا جس میں ملک کے مفاد کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا‘۔
علاوہ ازیں پلی بارگین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ 'جب تک میں منظور نہ کروں کوئی پلی بارگین نہیں ہوسکتی'۔