فوج ریاست کی ہے‘ قومی سیاسی قائدین اسے سیاست میں نہ گھسیٹنے کا عہد ضرور کریں

وزیراعظم عمران خان کا پاک فوج کے جمہوری حکومت کے پیچھے کھڑے ہونے اور کسی کو این آر او نہ دینے کا دوٹوک اعلان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ آج پاکستان کی فوج ایک جمہوری حکومت کے پیچھے کھڑی ہے‘ فوج میری پالیسی کے ساتھ ہے لیکن اپوزیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ نوازشریف کبھی جمہوری نہیں تھے‘ پہلے انہیں فوج نے پالا‘ یہ سب میرے سامنے ہے کہ فوج نے کیسے ہاتھ پکڑ کر منہ میں چوسنی لگا کر انہیں سیاست دان بنایا۔ گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ فوج نہ ہوتی تو پاکستان کے تین ٹکڑے ہوچکے ہوتے۔ اپوزیشن جماعتوں کو جمہوریت پسند نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں وزیراعظم ہوتا اور مجھ سے پوچھے بغیر آرمی چیف کارگل پر حملہ کرتا یا ظہیرالاسلام مجھ سے استعفے کا مطالبہ کرتا تو میں اسے کھڑے کھڑے فارغ کر دیتا۔ انکے بقول میں منتخب وزیراعظم ہوں‘ کس کی جرأت ہے کہ مجھ سے استعفیٰ مانگے۔ نوازشریف دراصل امیرالمومنین بننا چاہتے تھے‘ انکی ہر آرمی چیف سے لڑائی تھی‘ فوج حکومت کا ادارہ ہے‘ حکومت چلانے کیلئے جس ادارے کی ضرورت ہوئی‘ میں استعمال کروں گا۔ 
وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ آرمی چیف نے ان سے پوچھ کر اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی لیڈران سے ملاقات کی تھی‘ نوازشریف ملک سے باہر بیٹھ کر فوج کیخلاف مہم چلا رہے ہیں۔ وہ دوسرے بانی ایم کیو ایم بن گئے ہیں‘ بھارت نوازشریف کی مدد کررہا ہے جو پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے۔ انکے بقول اپوزیشن این آر او لینے کیلئے دبائو ڈال رہی ہے۔ میں اقتدار چھوڑنے کو ترجیح دوں گا مگر این آر او نہیں دوں گا۔ اپوزیشن عدلیہ‘ فوج اور نیب پر پریشر ڈال رہی ہے۔ اگر اس وقت یہ پریشر ہم نے جھیل لیا تو پاکستان وہ ملک بن جائیگا جو اسے بننا چاہیے تھا۔ اگر اپوزیشن استعفے دیگی تو ہم الیکشن کرا دینگے۔ انکے بقول ماضی صرف سیکھنے کیلئے ہوتا ہے‘ ہم نے سیکھا ہے کہ فوج کا کام حکومت چلانا نہیں ہے‘ آج اعتماد اس لئے ہے کہ سب اپنے دائرے میں کام کررہے ہیں‘ ایک جمہوری حکومت اپنے منشور کے مطابق کام کررہی ہے اور فوج حکومت کے مطابق کام کررہی ہے۔ 
آئین و قانون کے مطابق جمہوریت کی عملداری اور اسی طرح آئین و قانون کے مطابق ریاستی اداروں کی جانب سے اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے معاملہ میں ہمارا ماضی کوئی زیادہ تابناک نہیں رہا اور یہ تلخ حقیقت ہماری سیاسی تاریخ میں رقم ہو چکی ہے کہ ماورائے آئین اقدامات کے تحت جمہوریت کی بساط باربار الٹائی جاتی رہی ہے۔ اسی طرح یہ تلخ حقیقت بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کی جانب سے اقتدار کی شیرینی کے حصول کی خاطر ماورائے آئین اقدام والوں کو اپنا کندھا فراہم کیا جاتا رہا ہے اور ہماری عدلیہ بھی نظریہ ضرورت کے تحت ایسے اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کرتی رہی ہے۔ بے شک ہمارے سیاست دانوں کی گزشتہ چھ دہائیوں سے اب تک کی کھیپ فوجی حکمرانیوں میں ماورائے آئین اقدام والوں کی نرسریوں میں ہی پروان چڑھی ہے تاہم جس طرح مشرف آمریت کے دور میں 2007ء میں ججز بحالی کیس کے فیصلہ کے تحت سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کرتے ہوئے نظریہ ضرورت عدالت عظمیٰ کے احاطہ میں دفن کرنے کا اعلان کیا‘ اسی طرح سیاست دانوں نے بھی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا اور 2005ء میں اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر چارٹر آف ڈیموکریسی طے کرکے آئندہ کیلئے اپنی مخالف حکومت کو گرانے کیلئے ماورائے آئین اقدام والوں کو اپنا کندھا فراہم نہ کرنے کا اعلان کیا۔ 
بے شک میثاق جمہوریت کے باوجود حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین ٹھنی رہی اور وہ ایک دوسرے کے اقتدار کیلئے صبح گیا یا شام گیا والی فضا ہموار کرتے رہے تاہم جمہوریت کی پائیداری و استحکام کیلئے سب سے زیادہ خوش آئند صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ ریاستی اداروں‘ عدلیہ اور فوج نے جمہوریت کو گزند نہ پہنچنے دینے کا عزم باندھ لیا البتہ ان اداروں کی جانب سے آئین کے تقاضوں کے مطابق اصلاح احوال کیلئے ضرور تردد کیا جاتا رہا۔ جمہوریت کے پھلنے پھولنے کے حوالے سے یہی خوشگوار صورتحال ہے کہ جوڈیشل ایکٹوازم میں بھی جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچنے دیا گیا جبکہ سیاست دانوں کی جانب سے امپائر کی انگلی اٹھنے کی انگیخت کے باوجود کسی سپہ سالار پاکستان نے ماورائے آئین اقدام والی ترغیب قبول نہیں کی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی سے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تک ہر آرمی چیف نے فوج کے سیاست سے لاتعلق ہونے کا اعلان کیا اور عساکر پاکستان کی توجہ دفاع وطن اور ملک کے اندرونی استحکام کے حوالے سے اپنی آئینی ذمہ داریوں پر مرکوز رکھی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو ہفتے قبل اپوزیشن کے پارلیمانی قائدین سے اسی تناظر میں ملاقات کرکے انہیں باور کرایا کہ افواج پاکستان کا سیاست سے کسی قسم کا کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے اس لئے سیاست دان اپنے سیاسی معاملات میں فوج کو ملوث نہ کریں اور تمام اختلافی ایشوز خود متعلقہ پلیٹ فارموں پر طے کریں۔ انہوں نے یہ بھی باور کرایا کہ حکومت چاہے جس کی بھی ہو‘ افواج پاکستان نے آئین کے تحت اسکے احکام کی تعمیل کرنی ہوتی ہے۔ 
اگر حکومتی ریاستی ادارے آئین و قانون میں ودیعت کی گئی اپنی ذمہ داریاں ہی بحسن و خوبی سرانجام دے رہے ہوں تو سسٹم کے استحکام کی اس سے زیادہ مثالی صورتحال اور کوئی نہیں ہو سکتی اور خوش قسمتی سے آج ایسی ہی مثالی فضا قائم ہو چکی ہے جس کا وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے ٹی وی انٹرویو میں اظہار کیا ہے۔ اس مثالی فضا میں جمہوریت کے ثمرات عوام الناس تک پہنچانے کا تردد کرلیا جائے تو جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوئی سازش پنپ نہیں سکتی اور قوم آج پی ٹی آئی حکومت سے اسکی ہی متقاضی ہے کیونکہ عوام کے گھمبیر ہوتے روٹی روزگار اور غربت مہنگائی کے مسائل نے انہیں عملاً زندہ درگور کردیا ہے۔ آج تمام ریاستی ادارے ایک صفحے پر ہیں جس کا ٹھوس اظہار بھی ہورہا ہے اور عملیت پسندی نظر بھی آرہی ہے تو حکومت اور اپوزیشن میں موجود تمام قومی سیاسی قائدین کو جمہوریت کا استحکام ہی اپنا مطمح نظر بنانا چاہیے اور بلیم گیم والی ماضی کی سیاست کی بساط لپیٹ کر جمہوریت کے ثمرات حقیقی معنوں میں عوام تک پہنچنے دینے چاہئیں۔ بے شک عساکر پاکستان ہی ملک کی بقاء و سلامتی اور اب سی پیک کے تناظر میں اسکی ترقی و خوشحالی کی بھی ضامن ہیں‘ انہیں اپنے سیاسی مفادات و مقاصد کے تحت کسی بھی جانب سے سیاست میں ملوث کرنا چاہیے نہ ایسا کوئی تاثر دینا چاہیے۔ فوج درحقیقت ریاست کی فوج ہوتی ہے جسے سیاست میں گھسیٹنا ملکی سلامتی اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے سے ہی تعبیر ہوگا اس لئے تمام قومی سیاسی قیادتوں کو کم از کم فوج کو سیاست میں گھسیٹنے سے باز رہنے کا عہد ضرور کرنا چاہیے۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...