اربابِ اختیار متوجہ ہوں

معلم قوم کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ہم سب یہ جانتے ہیں اور اقوالِ زرّیں کی حد تک پڑھتے ہی رہتے ہیں لیکن عملی صورت میں معاشرے کے اس اہم رْکن کو ہم کیا اہمیت دیتے ہیں یہ ہم سب کو بھی معلوم ہے۔ ایسے خوبصورت سنہری اقوال دیگر ترقی یافتہ ممالک کے اساتذہ پر تو صادق آتے ہیں لیکن ہمارے اساتذہ اس اہمیت اور عزت افزائی سے یکسر محروم ہیں۔ اساتذہ اور ان کا رْتبہ کیا ؟ اسب میں ہزاروں بارکے لکھے پڑھے اس سبق کو کیا دہرائوں کہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے ویسے ویسے اس طبقے کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ عام عوام سے لے کر وزیر، وزراء کے ایک خاص طبقے تک کو اساتذہ کو ملنے والی تنخواہیں قریب کی عینک سے بہت بڑی دکھائی دینے لگتی ہیں لیکن یہ تنخواہیںکیا اْن کی صبح وشام محنت اور مسائل سے زیادہ بڑی ہیں؟ کیا اْن کو ملنے والی مراعات دوسرے محکموں سے زیادہ ہیں یا پھر اْن کے گریڈ دوسرے محکموں کو عطا کئے جانے والے گریڈ سے زیادہ اتھارٹی اور فوائد حاصل کررہے ہیں۔ ہر گزایسا نہیں ہے ہمارے ملک میں اْستاد کی مجموعی صورتِ حال معاشرے اور حکومت کے روئیے پر نظر ڈالی جائے تو اساتذہ سب سے زیادہ مظلوم اور پسماندہ طبقہ معلوم ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے بلکہ کئی طرح کی شدید ذہنی اذیت کا شکار بھی ہے، ایک خاص روّیہ اْسے ہیڈ ماسٹریاہیڈ مسٹریس کے ذریعہ سے بھگتنا پڑتا ہے اس جانب کسی کی کوئی خاص توجہ نہیں ہے، گھر کی فکروں سے دوچار جب وہ سکول کی چاردیواری میں داخل ہوتا ہے توگویا زیادہ غیر محفوظ ہوجاتا ہے۔ جب اْسے معمولی باتوں پر ہیڈ ٹیچر کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا ہے ، کبھی معمولی غلطی اور کبھی کسی بھی قصور کے بغیر ایک انتہائی پڑھا لکھا اْستاد جو گھر سے عزت کی روٹی کمانے اور پیغمبری پیشہ کو نبھانے کا عزم لے کر نکلا ہوتا ہے ایک ہیڈ ٹیچر سے اس طرح بیعزتی کروا رہا ہوتا ہے گویا اْس پر دفعہ 302 عائد ہوچکی ہے اگر اپنے ناکردہ قصور پر آواز بلند کرے تو سزا میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اْسے اتنا ذلیل کیا جاتا ہے کہ اْ س کی عزتِ نفس خاموشی سے اْس کی مجبوری کے ہاتھوں اپنی موت آپ مرجاتی ہے، ہیڈ ماسٹر اور ہیڈ مسٹریس کو اپنے سٹاف کو اعلیٰ سروسز دینے اور اْن کا تحفظ کرنے پر مامور کیا جاتا ہے لیکن نجانے اس سیٹ میں ایسی کیا بات ہے کہ بیٹھنے والا فورا"ہی خدائی رْوپ اختیار کرلیتا ہے اْسے نچلا تمام طبقہ اپنا غلام بلکہ زرخرید غلام لگنے لگتا ہے وہ اْس کی جی حضوری پر مامور ہے، بات بات پر گورنمنٹ سکولز میں ہیڈٹیچرز کا اساتذہ کی بے عزتی کرنا ایک معمول بن چکا ہے ہر جگہ ایسا نہیں ہوگا لیکن بیشتر جگہ ایسا ہی ہے دوسرا مسئلہ اْن خواتین اساتذہ کا ہے جن کے نہایت کم عمر بچے ہیں جو نہ صرف ماں کے بغیر رہ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ کہیں چھوڑ کر آسکتی ہیں اگر گورنمنٹ اور محکمے کی طرف سے اْنہیں اجازت ہے کہ وہ اپنے طور پر کسی کئیر ٹیکر کا انتظام کرکے بچہ اْس کے حوالے کرکیاپنے فرائض انجام دے لیں تو پھر یہ ہیڈ ٹیچرز اْنہیں ہر روز اس بات کو اْن کی کمزوری بنا کر بار باراْن کو ذہنی ٹارچر کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ اس بات پر محکمہ انتظامیہ کی نظر کیوں نہیں پڑتی کہ سکول کے ایسے آمرانہ ماحول کو بھی چیک کیا جائے ایسے رویّہ پر ایسے ہیڈ ٹیچرز کی جواب طلبی بھی ہو، اگر اساتذہ کو ذہنی سکون حاصل نہ ہوگا تو وہ اپنے پیشے اپنی تدریسی فرائض سے کیسے انصاف کر پائے گا جبکہ دوسری طرف محکمے کو اْس سے ہزاروں توقعات بھی وابستہ ہیں، اْستاد کو پورا دن کلاسز میں بھی جانا ہے طلبہ و طالبات سے سختی سے ایس اوپیز پر عمل بھی کروانا ہے۔ ڈینگی کے بارے میں بھی بتانا ہے تعلیمی پلان بھی بنانا ہے۔ مطلوبہ وقت میں سلیبس بھی مکمل کروانا ہے اور ہیڈ ٹیچرز سے روزانہ کی بنیاد پر ذہنی اذیت کا شکاربھی ہونا ہے اکثر دیکھنے میں آیا کہ جہاں ایک ہیڈ ٹیچر اور اْستاد کا کلیش ہوا ہیڈ ٹیچر نے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرکے صاف بچ نکلتی ہے اس معاملے کو حل کرنے کیلئے ایک غیر جانبدار اور انصاف کے اْصولوں پر چلنے والی کمیٹی بھی تشکیل دی جانی چاہئے۔ بہت سے اساتذہ ایسے جابر اور آمر ہیڈ کے ڈر سے بولنے سے دریغ کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ ظلم کا ساتھ دینا بھی ظالم کا ساتھ دینے کے برابر ہے۔ یقینا" اْن کی مجبوریاں ہوتی ہوں گی اس معاملے میں محکمے کو اْن سے تعاون کرنا چاہئے، ہمیں مستقبل کی کامیاب نسلیں پروان چڑھانے کیلئے اساتذہ کو عزت دینا ہوگی۔ صرف سلام ٹیچر ڈے منانے سے کام نہیں چلے گاہر دن استاد کے حقوق اور عزت کا دن ہونا چاہئے۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...