لاہور‘ کراچی‘ سیالکوٹ‘ ساہیوال‘ ننکانہ صاحب‘ فیروز والا ( نمائندہ خصوصی+ نامہ نگاران+ نمائندگان+ آن لائن) لاہور میں اچھی نوکری کا جھانسہ دیکر 2 کمپنی ملازموں کی ساتھی لڑکی سے اجتماعی زیادتی‘ سیالکوٹ میں دکاندار کی 10 سالہ بچی اور تنخواہ لینے آئی خاتون سے فیکٹری مالک نے زیادتی کر ڈالی۔ ساہیوال میں رکشہ ڈرائیور کی بیٹی 16 سالہ طالبہ کو کزن نے ہوس کا نشانہ بنایا جبکہ لاہور‘ جڑانوالہ روڈ پر اجتماعی زیادتی کے 6 میں سے 2 زیر حراست ملزموں عمران اور اکمل کو 5 رزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ کراچی کلفٹن میں لڑکی سے مبینہ زیادتی کے کیس میں ایک ملزم نے متاثرہ سے دوستی کا اعتراف کر لیا۔ فیروز والا میں خاتون بے آبرو، 2 افراد نے لڑکے کو نشانہ بنایا۔ لاہور میں اجتماعی زیادتی کا ایک اور واقعہ سامنے آ گیا۔ دو افراد نے نوکری کا جھانسہ دے کر خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ شیخوپورہ کی رہائشی لڑکی کو نوکری کا جھانسہ دے کر ملزم حسن اور عرفان نے لاہور بلایا۔ متاثرہ لڑکی کے مطابق ملزموں نے ریلوے سٹیشن کے قریب ایک ہوٹل میں اس کے ساتھ زیادتی کی۔ تھانہ نولکھا پولیس نے متاثرہ لڑکی کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا۔ ادھر وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے نولکھا میں لڑکی سے اجتماعی زیادتی کے واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے۔ سی سی پی او لاہور عمر شیخ سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے واقعہ میں ملوث ملزمان کو جلد گرفتار کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ نجی ٹی وی مطابق متاثرہ لڑکی نجی کمپنی میں ملازمت کرتی تھی اور اسے زیادتی کا نشانہ بنانے والے دونوں افراد اس کے ساتھی تھے جنہوں نے اسے اچھی نوکری پر لگانے کا جھانسہ دیا اور ساتھ لے گئے۔ لڑکی کی حالت غیر ہونے کی اطلاع ملنے پر ہوٹل انتظامیہ نے پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس کے مطابق لڑکی کو ہسپتال منتقل کرکے اس کا میڈیکل کرایا گیا ہے۔ فیروزوالہ سے نامہ نگار کے مطابق چار افراد کی خاتون سے اجتماعی زیادتی‘ دو اوباش لڑکے کو نشانہ بنا کر فرار ہو گئے۔ بتایا گیا ہے لاہور روڈ کی آبادی باوے دا کٹیا میں طارق نے دیگر ساتھیوں کی مدد سے پارلر کی مالکہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کر ڈالی۔ فیکٹری ایریا پولیس نے طارق، نوید عرف بگا اور ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ رانا ٹائون میں دو نوجوان حسن رضا، جبار عرف بھالو نے محنت کش کے بیٹے کے ساتھ زیادتی کر ڈالی۔ سیالکوٹ سے نامہ نگار کے مطابق سروبے چک میں دس سالہ بچی سے درندگی کی گئی۔ جبکہ نول موڑ میں تنخواہ لینے کیلئے آنے والی خاتون سے فیکٹری مالک نے زیادتی کر ڈالی۔ تھانہ سبز پیر کے گاؤں سروبے میں دس سالہ بچی محمد رفیق کی دکان پر پاپڑ لینے گئی۔ رفیق نے سٹور میں لے جا کر زیادتی کر ڈالی۔ تھانہ اگوکی کے علاقہ نول موڑ میں فاطقہ بی بی ایک ماہ کی تنخواہ لینے فیصل کے دفتر گئی تو اس نے اسے پکڑ لیا اور زبردستی زیادتی کر ڈالی۔ فاطقہ بی بی کا کہنا ہے کہ قبل ازیں ملزم فیصل کا بھائی رؤف اور دوست عظیم بھی متعدد بار زیادتی کرتے رہے ہیں۔ ساہیوال سے نمائندہ نوائے وقت کے مطابق کوٹ خادم علی شاہ میں رکشہ ڈرائیور کی بیٹی سے پڑوسی نے زیادتی کر ڈالی۔ 16سالہ طالبہ گھر میں تھی اسکا کزن سبزی فروش خالد جبراً گھر گھس گیا اور اسلحہ کے زور پر اسے ہوس کا نشانہ بنایا۔ شور پر اہل محلہ کے آنے پر ملزم بھاگ گیا۔ ننکانہ صاحب سے نامہ نگار کے مطابق لاہور جڑانوالہ روڈ پر لفٹ دیکر اجتماعی زیادتی کے 6 میں سے 2 زیرحراست دو مرکزی ملزمان کو پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا، پولیس کو ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا حکم۔ گینگ ریپ کے دومرکزی ملزمان عمران اور اکمل کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ مجسٹریٹ محمد عادل ریاض کی عدالت میں متاثرہ لڑکی اور مرکزی ملزمان کے بند کمرے میں بیانات قلمبند کئے گئے۔ جبکہ چار نامعلوم ملزمان کی تلاش جاری ہے۔ کراچی سے آن لائن کے مطابق کراچی کے علاقے کلفٹن میں لڑکی سے مبینہ زیادتی کے کیس میں نامزد ایک ملزم نے تفتیشی افسر کو اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے۔ذرائع کے مطابق عبداللہ نامی ملزم نے تفتیشی افسر کو کہا کہ لڑکی کی جانب سے ان پر اغوا کا الزام سراسر جھوٹ ہے۔کیونکہ وہ لڑکی کو ایک مہینے قبل سے جانتا ہے۔ جو فون پر بھی بات کرتی تھی۔ دونوں کے آپس میں دوستانہ تعلقات تھے۔زیادتی کیس میں نامزد دوسرا ملزم عبد القادر والدہ کی وفات کی وجہ سے تفتیشی افسر کے سامنے پیش نہیں ہو سکا۔ دونوں ملزمان نے بلوچستان ہائیکورٹ سے 13 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت حاصل کررکھی ہے۔کیس کی تحقیقات کادائرہ وسیع کردیا گیا ہے۔ انکشاف ہوا کہ واقعے میں ملوث ایک ملزم پیپلز پارٹی کے رہنما کا بیٹا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق ملزمان کا مکمل ڈیٹا حاصل کرلیا ہے، واقعے میں ملوث ملزمان کو جلد گرفتار کیا جائے گا۔ دوسری جانب پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحقیقات میں یہ بات معلوم ہوئی کہ مقدمہ درج ہونے کے بعد بھی لڑکی اور لڑکا دونوں رابطے میں تھے۔ جبکہ پولیس کے دعوے کے مطابق میڈیکل رپورٹ میں بھی لڑکی سے زیادتی کی تصدیق نہیں ہوئی۔