سردار بلدیوسنگھ کوئی کام کرنا تو جانتے نہیں تھے مگر ہر کام میں اپنی ٹانگ اڑانا، ہرکسی کومفت مشورے سے نوازنا اور ہرکام کو اپنے کھاتے میں ڈالنا‘ ان کا محبوب مشغلہ تھا ۔ایک دن گاؤں سے باہرجارہے تھے اور انہوں نے صبح سے نہ تو کسی کی شکل دیکھی تھی اورنہ ہی مفت مشورہ دیا تھا لہٰذا انکی طبیعت خاصی بوجھل اور مزاج اُکھڑا ہوا تھا۔کیا دیکھتے ہیں کہ چودھری صاحب کا ملازم مشین پر چارہ کاٹ رہا ہے ۔ آگے بڑھے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا تم نے اپنی زندگی ضائع کرلی مگر چارہ کاٹنا نہ آیا ، بس سردار صاحب کو خود توکوئی کام کرنا نہیں آتا تھا ، جیسے ہی چارہ مشین میں ڈالا تو چارے کے ساتھ ساتھ اپنا بایاں ہاتھ کٹوا بیٹھے ۔ پھر بندھی پٹی کے ساتھ گھر میں تسلی سے بیٹھ گئے ۔گاؤں والے خیریت پوچھنے آئے تو کہنے لگے کہ آپ کو لکھنے لکھانے کا شوق ہے‘ شکر کریں کہ آپ کا دایاں ہاتھ بچ گیا ورنہ آ پ کا یہ اکلوتا شوق بھی باقی نہ رہتا ۔ انہوں نے جواباً کہاکہ جو سوال آپ کے ذہن میں آیا ہے وہی میرے ذہن میں بھی تھا‘ اب میں اتنا بھی جھلا نہیں۔ مشین میںآیا تودایاں ہاتھ ہی تھا مگر میں نے جلدی سے کھینچ کر بایاں ہاتھ آگے کر دیا ۔
افغانستان کے ساتھ لڑائی تو 40 ممالک کی تھی۔ اتحادی افواج ناکام ہوئیں یا کامیاب ، انہیں اہداف ملے یا نہیں،’’ بیگانی شادی میں عبداللہ کیوں دیوانہ ‘‘ ہمارا اس سے کیا تعلق ؟ مگر ہمارے ہاں ہر صبح بیانات داغنے والے ’’ حکومتی اکابرین‘‘ نے اپنا فریضہ بنالیا ہے کہ دنیا میں خواہ کہیں بھی کچھ ہورہا ہو‘ انہوں نے بیان ضرورداغنا ہے ۔ بیان داغنے کے اس شوق میں وزراء بھی مبتلا ہیں ۔ بندہ ان وافر عقل والوں سے پوچھے کہ آپ نے کبھی ان بیانات کو جاری کرنے سے قبل فارن آفس یا متعلقہ عالمی امور کے ماہرین سے مشورہ کیا ہے۔ ہمیں کیا ضرورت تھی کہ بغلیں بجاتے، بڑھکیں مارتے اور عالمی معاملات اپنے کھاتے میں ڈالتے کہ ہم نے افغانستان سے امریکہ کو بھگا دیا ہے ۔ نیٹو افواج صرف امریکہ نہیں بلکہ 40 ممالک کی اتحادی فوج ہے ۔ہمارے پے در پے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے صرف امریکہ ہی نہیں چالیس ممالک کو بھی ناراض کردیا ہے ۔ اتنے بیانات وزیر خارجہ نے نہیں دئیے جتنے دیگر وزراء نے داغ دئیے ۔ اب ان غیر ذمہ دارانہ بیانات کے بعد امریکہ سمیت دیگر اتحادی ممالک نے ہمیں طالبان کے ساتھ نتھی کر کے پاکستان کیلئے مستقبل میں انتہائی مشکل حالات پیدا کردئیے ہیں ۔ ہماری خارجہ پالیسی، اگر صرف وزارتِ خارجہ چلا رہی ہے تو اسے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی عہدیداروں کو غیر ذمہ دارانہ بیانات داغنے سے روکنا چاہئے تھا ۔ ان ممالک کی اکثریت یہ سمجھ رہی ہے کہ ہماری بے عزتی ہوئی ہے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ امریکہ میں اچانک نریندرمودی بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے جسے ہم اپنے بیانات میں ’’ سنگل آؤٹ ‘‘ کیے بیٹھے تھے۔ وہ واشنگٹن میں امریکی صدر سے کورونا کی وجہ سے محدود ملاقاتوں کے باوجود طویل ملاقات کرتا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا اجلاس محض گفت وشنید ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے سربراہان کا آپس میں ایک دوسرے سے رابطوں کا ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے اور دنیا بھر کے بہت کم حکمران اس موقع کو ضائع کرتے ہیں ۔
وزیر اعظم پاکستان کو ہر صورت اس اجلاس میں شرکت کرنا چاہئے تھی۔ ہمیں اقوام متحدہ کو مشورے دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پلیٹ فارم تو اپنے مسائل اُجاگر کرنے کا ہے ۔ بال بال بری طرح قرض میں ڈوبے ملک کے حکمران کو مشورے دینے کی کیا ضرورت ؟سننے والے یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہروقت ہم ہی سے مدد مانگتے ہیں اور پھر مشورے بھی ہمیں ہی دیتے ہیں۔گزشتہ چند سالوں میں ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کا کوئی بھی شعبہ اپنا معیار برقرار نہیں رکھ پا رہا حتی ٰ کہ پرائیوٹ سیکٹر، پبلک سیکٹر سے کہیں بڑھ کر کرپٹ ہوچکا ہے اور جب حکومتیں کمزور ہوں تو اس طرح کے حالات خود بخود پیدا ہوجایا کرتے ہیں۔ ہمارے وزراء اور حکومتی عناصر کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی مگر انہوں نے نہ کی۔خارجہ پالیسی میں اپنے جو ہر نہیں دکھائے جاتے۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور حکومتی عہدیداران نے طالبان اور افغانستان کے حوالے سے جو غیر ذمہ دارانہ بیانات جاری کیے ان کی فوری ٹرانسلیشن کر کے دنیا بھر کے فارن آفسز نے اپنے ملکوں کو رپورٹس روانہ کیں کہ یہ انکے معمول کا حصہ ہے۔ ہمیں یہ تاثر دینا چاہئے تھا کہ ہم کسی گروہ نہیں بلکہ افغان عوام کے ساتھ ہیں اور ہمیں انٹرنیشل کمیونٹی کے ساتھ کا تاثر دینا چاہئے تھا۔ ہم عالمی سیاست اور عالمی کاروبار کے درمیان ایک باریک سی لائن کو برقرار نہیں رکھتے بلکہ اسے آپس میں ملا دیتے ہیں ۔
امریکہ اور ایران کے درمیان سالہا سال تک جنگ و جدل جیسے تعلقات رہے مگر اس تمام عرصے میں امریکہ اور ایران کے درمیان کاروباری تعلقات ایک خاص حد تک بحال رہے اور بزنس بھی چلتا رہا ۔ سعودی عرب اور ایران کی مخالفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں مگر دونوں کے درمیان کاروباری تعلقات پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ہمیں افغانستان کے حالیہ حالات پر خاموش رہ کر یکطرفہ بیان بازی سے گریز کرنا چاہئے تھا مگر ہم اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ ہم سے چوبیس سال بعد آزاد ہونے والے بنگلہ دیش کی وزیراعظم پاکستان کیلئے ہمیشہ سخت مؤقف اختیار کرتی ہیں اور ہم اس پر خاموش رہتے ہیں ۔ہر آنے والے دن میں عالمی تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ امریکہ میں جس طریقے سے بھارت لابنگ کرکے ہندوؤں کو اکٹھا کررہا ہے ، جس طرح وہاں جلوس نکالے گئے اور وہاں جو زبان اب استعمال کی جاتی ہے اتنی جرأت اس سے پہلے بھارت کو کبھی نہ تھی ۔
منی لانڈرنگ کے حوالے سے رپورٹ ایک ایسے وقت پر منظر عام پر آئی جب پاکستان پر دباؤ بڑھانے کیلئے عالمی طاقتوںکو چند ایسے پاکستانیوں کی ضرورت تھی جن کے منہ میں وہ اپنی زبان ڈال سکیں ۔گزشتہ چند دنوں سے منظرِ عام پر آنے والے سخت مؤقف کا یہ جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ کہیں نہ کہیں ، کوئی نہ کوئی مک مکا اور معاملات رازداری سے جاری ہے ۔
'' Beggars have no choice'' جب ہم کمزور پوزیشن میں ہوں تو احتیاط اور بھی لازم ہوجاتی ہے ۔کوئی ہے جو ان بیانات داغنے والے وزراء کو سمجھا سکتا کہ مسائل میں گھرے پاکستان کیلئے اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات داغ کر مزید مسائل پیدا نہ کریں لیکن نہیں ہم کیوں سمجھیں ۔ ہمیں تو بس گیند گول میں پھینکنی ہوتی ہے چاہے گول اپنا ہی کیوں نہ ہو؟
٭…٭…٭
عالمی معاملات پر غیرذمہ دارانہ بیانات
Oct 03, 2021