مکرمی! عثمانی عہد کے خلیفہ سلطان محمد فاتح (فاتح قسطنطنیہ یعنی استنبول) کا ایک تاریخ ساز واقعہ ہے کہ جب سلطان محمد فاتح کی موت کا وقت آن پہنچا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو بلایااور کچھ وصیتیں کیں کہ ’’بیٹے میں موت کے کنارے پر کھڑا ہوں مگر مجھے موت کا کوئی افسوس نہیں، اس لئے کہ میں اپنے بعد تمہارے جیسی لائق اولاد چھوڑ کر جارہا ہوں۔ بیٹے اپنی قوم کے ساتھ عدل و انصاف اور رحم و کرم کا برتائو کرنا بغیر کسی تمیز کے رعایا کے ساتھ یکساں سلوک کرنا اور دین اسلام کو پھیلانے کی پوری کوشش کرنا کہ یہ روئے زمین کے تمام حکمرانوں پر فرض ہے‘ دین کا ہر کام پر مقدم رکھنا اور ایسے افراد کو ملازم نہ رکھنا جو دین کو اہم نہیں سمجھتے ، کبیرہ گناہوں سے نہیں بچتے اور فحاشی کو پسند کرتے ہیں۔ بدعات و خرافات سے دور رہنا اور ایسے لوگوں سے بھی دور رہنا جو ان کاموں کو پسند کرتے ہیں اور ان کو بجا لاتے ہیں‘جہاد کے جھنڈے کو کبھی سرنگوں نہ ہونے دینا، بیت المال کی حفاظت کرنا۔‘‘ علامہ اقبال نے بھی اپنے فارسی کلام ’’مثتوی مسافر‘‘ میں سلطان محمد فاتح کی تعریف کی ہے۔ (محمد اسلم چودھری، ابدالین سوسائٹی ، جوہر ٹائون، لاہور)