کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے…؎
جنوں تبدیلی موسم کا تقریروں کی حد تک ہے
یہاں جو کچھ نظر آتا ہے تصویروں کی حد تک ہے
غبار آثار کرتی ہے مسافر کو سبک گامی
طلسم منزل ہستی تو رہ گیروں کی حد تک ہے
دوستو!مدعا موسم کی تبدیلی اوراثرات اور ہماری آنے والی نسلی ہیں۔ماہرین نے مستقبل میں ہیٹ ویو کے واقعات میں 7 گنا اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہا آنیوالے دنوں میں موسمیاتی تبدیلیاں انتہائی شدت اختیار کر لیں گی۔ ہماری آنے والی نسلیں شدید موسمی اثرات کا سامنا کریں گی۔ وہ بچے جو رواں برس پیدا ہوئے ہیں، وہ اپنے دادا کے مقابلے میں ہیٹ ویو کے 7 گنا زیادہ واقعات کا سامنا کرینگے۔ان بچوں کو اپنے دادا کے مقابلے میں جنگلات میں آگ لگنے کے دگنے واقعات کا سامنا کرنا پڑیگا جبکہ خشک سالی کے واقعات میں بھی 3 گنا اضافہ ہو جائیگا۔یہ باتیںواقعی باعث تشویش ہیں لیکن محققین نے ناصرف ان وجوہات کوبیان کیا بلکہ انکے تدارک کیلئے بھی کوشاں ہیں۔
1988 کی ریکارڈ توڑنے والی گرمی امریکہ میں بڑی خبر تھی اس نے ناسا کے سائنس دان ڈاکٹر جم ہینسن کے انتباہ کو اجاگر کیا کہ گرین ہائوس گیسز کے اثر کا پتہ چلا ہے جو ہماری آب و ہوا کو بدل رہا ہے۔ سیاسی رہنمائوں نے اس کانوٹس لیاتھا۔تب برطانیہ کی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے اس بڑے نئے عالمی خطرے کو تسلیم کیا اور کہا کہ پوری دنیا کو ماحولیاتی چیلنج کا سامنا تھا جو پوری دنیا سے مساوی ردعمل کا مطالبہ کرتا ہے۔1989 میں، ایکسن کی حکمت عملی کے سربراہ ڈوئین لیون نے کمپنی کے بورڈ کیلئے ایک خفیہ پریزنٹیشن تیار کی جو کمپنی کے آرکائیو میں موجود ہزاروں دستاویزات میں سے ایک تھی جو بعد میں آسٹن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس کو دی گئی تھی۔اقوام متحدہ کے سائنسدانوں کے ایک پینل کے مطابق سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے، برف پگھل رہی ہے اور انسانوں کی سرگرمیاں اور نقل و حرکت کے بڑھ جانے سے بہت سی جنگلی حیات اپنے مسکن تبدیل کرنے پر مجبور ہے۔مستقل طور پر منجمد خطوں کے پگھلنے سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ گیس کے اخراج کا خطرہ ہے جس سے یہ عمل تیز سے تیز تر ہوتا جائیگا۔ موسوم سی امید یہ بھی ہے کہ اگر کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج کو تیزی سے کم کر دیا جائے تو ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصان کو کم کیا جا سکتا ہے۔سائنسدانوں کو اب اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا کے سمندر 1970 سے اب تک لگاتار گرم ہو رہے ہیں۔انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونیوالی حدت کا نوے فیصد سمندر کے پانیوں نے جذب کر لیا ہے اور سمندر کا پانی جس رفتار سے گرم ہوا ہے وہ 1993 کے بعد سے دگنی ہو گئی ہے۔آئی پی سی سی کیمطابق سمندر کی سطح اب گرین لینڈ اور قطب جنوبی پر جمی برف کی تہہ پگھلنے سے ہو رہی ہے۔قطب شمالی اور قطب جنوبی پر جمی برف 2007 اور 2016 کے درمیان اس سے پہلے کے دس سالوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ رفتار سے پگھلی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اکیسویں صدی اور اس سے آگے یہ سلسلہ اس طرح جاری رہے گا۔دنیا کے دیگر علاقوں میں گلیشیئروں کے بارے میں یہ اندازہ ہے کہ اس صدی کے آخر تک ان کا اسی فیصد حصہ پگھل جائیگا۔ اسکے اثرات کروڑوں لوگوں پر پڑیں گے۔ماہرین کے مطابق گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے زراعت کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے، جس سے خوراک کی طلب پوری نہ ہونے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بالخصوص غریب ممالک کے عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔دوستوقابل ذکر بات یہ ہے کہ مین کے ماحول کے تحفظ کیلئے دنیا کے ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک نے خاص قسم کی گرین ہائوس گیسوں کا اخراج کم کرنے پر اتفاق کیا ہے جنہیں ہائیڈروفلورو کاربنز کہا جاتا ہے۔ ہائیڈرو فلورو کاربنز وہ گیسیں ہیں جو فریزروں، ایئر کنڈیشنروں اور سپرے میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ اور یہ عالمی حدت میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر ہم نے محفوظ خوشگوار ماحول اپنی نسل کو دینا ہے تو کل کیلئے آج کو بہتر کرنا ہوگا۔ فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلتے دھوئیں اور ناکارہ پانی کا مکمل بندوبست کرنا چاہیے تاکہ ماحول کے منفی اثرات سے بچا جائے اور صحت مند ماحول میں خوشگوارزندگی گزاری جائے۔ ماحول کی بہتری کیلئے حکومت کو چاہیے کہ شجرکاری مہم کا آغاز کیا جائے اور شہروں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تب ہی گلوبل وارننگ کے اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ساری دنیا کو ماحول کی بہتری کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ایٹمی جنگ چاہے کوئی بھی جیتے لیکن اگر ماحول کی بہتر کیلئے کچھ نہ کیا تو ہار ساری دنیا کی ہو گی۔ہم نسلوں سے زمین کے قدرتی وسائل کو ختم کرتے چلے آ رہے ہیں ہمیں آنے والی نسلوں کیلئے امن کیلئے ‘ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ اس کیلئے ہمیں اپنی زندگیوں کے کئی سال وقف کرنا ہوں گے۔