عمر شریف اللہ کو پیارے ہو گئے

عنبرین فاطمہ
قہقہے بکھیرنے والے سٹیج کے بے تاج بادشاہ کامیڈی کنگ ’’عمر شریف ‘‘  اپنوں ،بیگانوں اور دوستوں کو داغ مفارقت دے گئے ۔عمر شریف کافی عرصے سے علیل تھے۔ دل اور گردوں کے علاوہ دیگر بیماریوں میں مبتلا تھے انہیں ہارٹ سرجری کے لئے ائیر ایمبیولینس کے ذریعے امریکہ منتقل کیا جا رہا تھا دوران سفر حالت بگڑنے کے باعث انہیں جرمنی میں لینڈ کرنا پڑا ،طبیعت نہ سنبھلنے پر جرمنی کے ایک ہسپتال داخل کروایا گیا جہاں وہ جا ن بر نہ ہو سکے ۔عمر شریف کی وفات کا سن کر ہر آنکھ آشکبار ہے ان کے کچھ ساتھی جنہوں نے ان کے ساتھ کام کیا ہم نے ان سے گفتگو کی وہ سب کے سب بے حد دل گرفتہ تھے لیکن انہوں نے عمر شریف کے ساتھ اپنی دوستی اور کام کے تعلق کی یادوں کو جس طرح شیئرکیا نذر قارئین ہے ۔
’’وسیم عباس ‘‘ نے کہا کہ عمر شریف کے ساتھ میری نا ختم ہونے والی یادیں ہیں انہوں نے میرے ساتھ اپنی زندگی کا ایک طویل ترین حصہ گزارا ہے ،وہ میرے عزیز ترین دوستوں میں سے تھے میں کیا کہوں کہ کیا کیا یادیں ہیں اور کس قدر یادیں ہیں ۔آج ان کے انتقال کا سن کر شدید دکھی اور پریشان ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ کیسے وقت تیزی سے گزر جاتا ہے اور بس یادیں ہی رہ جاتی ہیں ۔مجھے یاد ہے کہ عمر شریف جب پنجاب میں ڈرامہ کرنے کے لئے آئے تھے تو میں ہی ان کو لایا تھا ہم نے پنجاب میں جتنا کام کیا ایک ساتھ ہی کیا ۔کراچی ہو یا لاہور ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ لا تعداد ڈراموں میں کام کیا ۔ہماری دوستی کا یہ عالم تھا کہ اگر عمر شریف لاہور آتے تھے میرے گھر پر رہتے ہم دن رات اکٹھے گزارتے اور اگر میں کراچی جاتا تو عمر شریف کے گھر ٹھہرا کرتا تھا ۔ہم نے سا ل ہا سال ایک دوسرے کے ساتھ گزارے ہیں اور عمر شریف کے فن پر کیا بات کی جائے دنیا گواہ ہے کہ وہ کتنے بڑے فنکار تھے ہندوستان کے بڑے فنکار جن کو یہاں بہت پسند کیاجاتا ہے وہ سب کے سب ان کے پرستار تھے ان کو کاپی بھی کیا کرتے تھے ۔میری ان سے بے پناہ دوستی تھی اور اگر عمر شریف اچھے نہ ہوتے تو ہماری دوستی چل ہی نہیں سکتی تھی ۔مجھے یاد ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ کام کر رہے تھے عمر شریف سٹیج پر تھے اور میری باری ابھی آنی تھی میں بیک سٹیج بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اتنے بڑے آرٹسٹوں کیساتھ کام کیا لیکن اس انسان کے کام کا انداز ہی الگ ہے ۔عمر شریف چھبیس سال کی عمر سے ہی شوگر کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ایک بار وہ سٹیج پر دورا ن کھیل ہی بیہوش ہو گئے ہم نے ایمبیولینس کو کال کی انائونس کیا کہ اگر ہال میں کوئی ڈاکٹر موجود ہے تو مدد کیجیے دو ینگ ڈاکٹر وہاں موجود تھے انہوں نے پہلا سوال ہی یہ کیا کہ کہیں یہ شوگر کے مریض تو نہیں ہیں بتایا گیا کہ ہیں تو انہوں نے پھر چینی گھول کر ان کے منہ میں ڈالی تو کچھ دیر کے بعد انہیں ہوش آیا ۔ عمر شریف جتنے سیٹ پر شرارتی تھے اتنے ہی آف دی سیٹ بھی شرارتی تھے۔
مزاح کی دنیا میں اپنا الگ ہی مقام رکھنے والے فنکار ’’سہیل احمد‘‘ کہتے ہیں کہ عمر شریف کے ساتھ مزاح کی ایک صدی ختم ہوئی ہے ہم تو اکثر یہ جملہ کسی کے لئے بھی بول دیتے ہیں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر فیلڈ میں عمر شریف کے لیول کا ایک بندہ ہوتا ہے اور مزاح کی دنیا میں صرف عمر شریف ہی تھا ۔آج کل تو ویسے ہی ہر کوئے کامیڈی کنگ  ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے لیکن اصل کامیڈی کنگ عمر شریف تھا جو چلا گیا ہے لیکن دِلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔پورے برصغیر میں ہم نے آنکھوں سے دیکھا کہ عمر شریف کے چاہنے والے کتنے زیادہ تھے بڑے بڑے نامور سٹارز کو عمر شریف کے ساتھ سیلفی لینے کے لئے ترستے ہوئے دیکھا ہے ۔ان سے مل کر طبیعت بحال ہو جاتی تھی چہرے پر خود بخود مسکراہٹ آجاتی تھی ۔ان کو ان کی زندگی میں جو مقام ملا وہ اللہ کا دیا ہوا تھا لیکن بطور پاکستانی میں کہوں گا کہ ان کو وہ مقام نہیں ملا جو ملنا چاہیے تھے ،وہ پاکستان کا وہ غیور چہرہ تھا جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔پاکستانیت ان کے اندر کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی ، انہیں پاکستان کی ثقافت سے بے حد محبت تھی ۔انہوں نے اپنے فن کو پیچھے اور پاکستان کو ہمیشہ آگے رکھا ۔عمر شریف ایک بڑے آدمی تھے ،لاہور میں وہ میرے محلے دار بھی تھے ہمارا ایک دوسرے کے گھر میں بہت زیادہ آنا جانا تھا ان کی بیگم اور بچے میرے بہت قریب تھے اور ہیں ۔سہیل احمد نے مزید کہا کہ بطور انسان میں نے ان سے زیادہ پیارا کسی کو نہیں پایا ،عمر شریف اپنے کام کو عبادت سمجھتے تھے وہ انسیت سے بھرپور انسان تھے شوگر کے مریض تھے شوگر ان کا خاندانی مرض تھا ۔ان کی جوان بہن  اور بھائی  وفات پا گئے تھے تو ان کے بچے عمر شریف کے پاس ہی ہوتے تھے انہوں نے صرف اپنے بچوں کو نہیں بلکہ پورے خاندان کے بچوں کو اپنے گلے سے لگایا ہوا تھا۔ ان کی خوشیوں غموں کو اپنا سمجھتے تھے ۔کھلے دل کے مالک تھے سیٹ پر شوٹنگ کے دوران کبھی بھوک لگتی تھی تو یہ نہیں کہتے تھے کہ میرے لئے فلاں چیز لے آؤ بلکہ یہ کہا کرتے تھے کہ جتنے بھی یہاں لوگ موجود ہیں سب کے لئے یہ چیز لے آئو اگر برگر منگوانا ہوتا تھا تو سب کے لئے منگواتے تھے چکن یا جو بھی چیز منگواتے سب کے لئے منگواتے ،اتنا بڑا دل خدا سب کو تو نہیں دیتا۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہم دونوں ایک ساتھ کام کررہے تھے عمر شریف خاصے پریشان تھے میں نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ بھانجے کو شوگر ہے اور انسولین لگانے کے بعد وہ کومے میں چلا گیا ہے دعا کریں اس کے لئے،ڈرامہ ختم ہوا اس کے بعد میں بھی ان کے ساتھ ہی ہسپتال میں چلا گیا ڈاکٹروں نے کہا کہ ہر قسم کی کوشش کرکے دیکھ لی ہے اب ایک آخری کوشش رہ گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ دو لاکھ کے انجیکشن لگیں گے ان کو اور ایک انجیکشن کی قیمت ساڑھے تین لاکھ ہے عمر شریف یہ سن کر برہم ہو گئے کہ لگایا کیوں نہیں ابھی تک جائو فورا لگائو تو اس طرح کے انسان تھے ۔ان جیسا نہ کوئی ہے نہ کوئی آئی گا، صدیوں میں بھی ایسے لوگ پیدا نہیں ہوتے۔
’’نسیم وکی‘‘ نے کہاکہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ حالیہ دور میں جو لوگ کام کررہے ہیں ان میں ہم وہ خوش نصیب ہیں جن کو عمر شریف کے ساتھ کام کرنے کا موقع میسر آیا ۔میں نے ان کے ساتھ مسلسل دس سال تک لاہور میں سٹیج پر کام کیا بہت سارے ڈرامے وڈیو میں بھی ریکارڈ ہوئے ،جن میں ’’یہ تو کمال ہو گیا ،ناچ میری بلبل ،عمر شریف حاضر ہو ،جو گھر گیا وہ مر گیا‘‘ قابل ذکر ہیں ۔
میرے پاس آج جو کامیابی ہے وہ انہی کی مرہون منت ہے میں ان سے بہت متاثر ہوں آج مجھے جتنا بھی کام آتا ہے بس سمجھیں کہ عمر شریف کو دیکھ کر ہی سیکھا ہے۔ہندوستان میں اس وقت جتنی بھی کامیڈی ہو رہی ہے وہ عمر شریف کی فلموں اور ان کے ڈراموں سے متاثر ہے ان کو یکھ کر بہت سارے لوگ شوبز میں آئے۔مجھے یاد ہے کہ میرا عمر شریف کے ساتھ پہلا ڈرامہ ’’ لوٹے اور لفافے‘‘ تھا اس دوران انہوں نے مجھ سے جب پہلی ملاقات کی تو سمجھایا کہ کبھی گندی جگت نہیں لگانی صاف ستھری بات کرنی ہے ۔لیکن ان کو جب میں نے پہلی بار دیکھا تھا توبہت خوش ہوا کہ میں نے عمر شریف کو با لمشافہ دیکھ لیا ہے ۔راولپنڈی میں انہوں نے میرے ساتھ ایک ڈرامہ کیا وہ سولہ دن کا سپیل تھا اس میں وہ ڈاکٹر بنے ہوئے تھے اور میں مریض بہت ہی یادگار تجربہ تھا ۔عمر شریف کے ساتھ کام کرکے آرٹسٹ کو اپنی ورتھ کا اندازہ ہوتا تھا کہ وہ فن کی دنیا میں کہاں کھڑا ہے۔
’’شیبا حسن ‘‘نے کہا کہ ساری دنیا ایک طرف اور میرا بھائی عمر شریف ایک طرف تھا اتنا پیار کرنے والا انسان میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ۔دنیا کچھ بھی کہتی تھی لیکن وہ کہا کرتے تھے کہ شیبا میری بہن ہے، میں اس کے ساتھ غداری نہیں کر سکتا ۔انہیں بہت سارے لوگوں نے کہا کہ شیبا کو فلاں ڈرامے میں نہ لو فلاں میں نہ لو لیکن انہوں نے کسی  کی نہ سنی اور مجھے اپنے ڈراموں میں کاسٹ کرتے رہے ۔عمر شریف کے تو طنزو مزاح کا کوئی مقابلہ ہی نہیں کر سکتا تھا  وہ اتنا فی البدیہہ بولتے تھے کہ بس لاجواب ہی کر دیتے تھے ۔
’’حامد رانا‘‘ نے کہاکہ عمر شریف ایشیاء کے ایک بڑے فنکار تھے پاکستان کی پہچان تھے ان کو یہ کمال حاصل تھا کہ وہ لوگوں کو ایک دو یا تین گھنٹے تک باندھ کر رکھتے تھے اور سارا ٹائم لوگ ہنستے ہی رہتے تھے ۔مجھے یاد ہے کہ ہم تماثیل میں اکٹھے ایک ڈرامہ کررہے تھے اس دوران میرا ان سے اختلاف ہو گیا اور پھر وہ چلے گئے جب وہ لاہور آئے تو انہوں نے اپنا ایک تھیٹر بنایا مجھے پتہ چلا وہ اپنے ڈرامے کیلئے کاسٹ کررہے ہیں مجھے لگا کہ وہ مجھے اپنے ڈرامے میں نہیں رکھیں گے لیکن انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ تم میرا ڈرامہ کرو میں نے حامی بھر لی اور بہت متاثر ہوا کہ انہوں نے دل میں کوئی بات نہیں رکھی اور مجھے کام دیا ۔عمر شریف کے قہقہوں پر ایسے فنکاروں کو ہنستے دیکھا جن کو دنیا دیکھنے کیلئے بیتاب رہتی تھی دبئی میں عمر شریف نے ایک ون مین  شو کیا جس  کے ناظرین میں امیتابھ بچن بھی تھے وہ عمر شریف کی باتوں پر ہنستے رہے اور  لوٹ پوٹ ہوتے رہے ۔عمر شریف ایک ہی تھا ان جیسا نہ کوئی ہے نہ ہو گا اللہ ان کے درجات بلند کریںامین ۔
۔۔۔۔۔۔

ای پیپر دی نیشن