تحریک ختم نبوت کے صفِ اول کے مجاہد

محسن پاکستان اور ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان (نشان امتیاز و بار)لکھتے ہیں کہ مولانا عبدالستار خان نیازی جیسے لوگ قوموں میں صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں وہ جس طرح وہ ظاہری طورپر اجلے تھے، ان کا باطن اس سے بھی زیادہ شفاف تھا ،مجھے ان کی کئی بار زیارت نصیب ہوئی۔ وہ ایک سچے عاشق رسولؐ تھے ۔1953ء ناموس رسالت ؐ کی ہر تحریک میں مولانا نیازی پیش پیس دکھائی دیتے تھے۔ بطور خاص رد قادیانیت کے حوالے سے ان کا ایثار، تاریخ اسلام کے ماتھے کا جھومر ہے"۔جب وہ حیات تھے ،ایک انٹرویو کے دوران ان سے پوچھا گیا ۔1953ء میں مرزائیت کی جو تحریک چلی تھی اس کے کیا اسباب تھے ؟ انہوں نے فرمایا خواجہ ناظم الدین نے بنیادی اصولوں پرغورو خوص کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی، اس کمیٹی میں یہ تو کہا گیا کہ ملک کا سربراہ مسلمان ہو گا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ مسلمان کو ن ہے؟تحریک ختم نبوت اسی لیے چلی کہ مسلمان کی تعریف کی جائے اور اسلامی شریعت کے مطابق جو شخص مسلمان نہیں یعنی وہ اسلام کا دشمن ہے ۔وہ کلیدی عہدوں پر فائز نہیں کیا جاسکتا۔اس دور میں ظفر اللہ پاکستان کا وزیرخارجہ تھا اور وزیرخارجہ ہوتے ہوئے وہ عالم اسلام اور پاکستان کے خلاف کھلے عام سازشوں میں مصروف تھا ۔ہر جگہ مرزائیوں کو سفارت خانوں میں ملازم رکھ رہا تھا،اس کا دماغ اس حد تک خراب تھا کہ اس نے قائداعظم کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی ۔جب اس پوچھا گیا کہ تم نے قائداعظم کی نماز جنازہ کیوں نہیں پڑھی تو اس نے جواب دیاکہ سمجھ لو ایک مسلمان نے کافر کی نماز جنازہ نہیں پڑھی یا ایک کافر نے مسلمان کا جنازہ نہیں پڑھا۔ ایسے ہی حالات کے تناظر میںفروری 1953ء کے آخر میں تحریکِ ختمِ نبوت نے تین مطالبات خواجہ ناظم الدین کے سامنے رکھے ۔ اول۔ ظفرا للہ کو وزارت خارجہ سے ہٹایا جائے۔ دوم ۔ کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ ہر مسئلے میں خاتم النبیین ؐ کی تعلیمات کو آخری حجت تسلیم نہ کرے۔ سوم۔ حکومت اور حکومتی اداروں کو اسلامی تعلیمات کے ماتحت لانے کا ہے۔یہ مطالبات منوانے کے لیے مجلسِ تحریکِ ختمِ نبوت تشکیل دی گئی جس کے تیرہ نمائندوں میں مولانا عبدالستار خان نیازی کا نام بھی شامل تھا۔تحریک چلتی رہی ،یہاں تک کہ قائدین کی اکثریت گرفتار ہوگئی۔مولانا نیازی نے لاہور کی مسجد وزیرخان کو تحریک ختم نبوت کا مرکز بنالیا ۔اس تحریک میں جو مسلمان شامل ہوتے تھے وہ یہ طے کرکے آتے تھے کہ ناموس مصطفی ؐ کے لیے جان بھی دینی پڑی تو اسے اعزاز سمجھا جائے گا۔پولیس نے مسجد وزیر خاں کو پولس نے چاروں اطراف سے گھیر رکھا تھا۔ مولانا نیازی ٹکراؤ سے ہرممکن بچنا چاہتے ہیں، ان کا مقصد تھا کہ جو کام بغیر قتل و غارت کے ہو جائے وہی بہتر ہے ۔لیکن حکومت ہر حال میں مولانا نیازی کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔چنانچہ فوج اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس قادیانی بھی بے تحاشہ فائرنگ کرنے لگے، جس سے کئی مسلمان شہید ہوئے ۔دہلی دروازے پر چار نوجوان موجود تھے قادیانیوں نے سب کو ایک ایک کرکے شہید کردیا ۔بالاخر 23 مارچ کومولانا نیازی سمیت تحریک کے دیگر علمائے کرام کو بھی گرفتار کرکے شاہی قلعے میں قید کردیاکچھ دنوں بعد انہیں جیل بھیج دیا گیا ۔فوجی عدالت میں کیس 17 اپریل کو شروع ہوا اور مئی کے مہینے تک کیس چلتا رہا۔ 7 مئی کو ملٹری کورٹ نے مولانا نیازی کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ مولانا نیاز ی کو پھانسی کا حکم نامہ دیتے ہوئے جیل کے ایک افسر نے کہا اس رجسٹر پر دستخط کردو۔ مولانا نیازی نے کہا میں جب پھانسی والی رسی کو چھوؤں گاتو یہ میرے دستخط ہی ہونگے۔ افسر کے اصرار پر مولانا نیازی نے موت کے پروانے پر دستخط کردیے۔ مولانا فرماتے ہیں، اس لمحے مجھے قرآن پاک کی وہ آیت یاد آئی جس کا  مفہوم یہ تھا کہ "موت اور زندگی کا مالک اللہ ہے۔" زمینی خداتو مجھے پھانسی دے کر تحریک ختم نبوت کو ختم کرنا چاہتے تھے لیکن میرے رب کا فیصلہ مجھے زندہ رکھنا تھا چنانچہ 23مارچ 1953ء کومجھے گرفتار کیا گیا اور 29اپریل 1955ء کو میں ضمانت پر رہا ہوگیا ۔اس اعتبار سے مجاہد ملت مولانا عبدالستار خاں نیاز ی عاشق رسول ؐ ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک ختم نبوت کے صف اول کے عظیم مجاہد قرار پائے ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...