محبتِ رسولؐ اطاعتِ رسولؐ ہے 

Oct 03, 2022


ایک مسلمان کا ہر دن میلاد مناتے ہی گزرتا ہے۔ قران شریف میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ ’’ اے محبوب ہم نے آپؐ کا ذکر بلند کردیا‘‘ نعت ِ رسول ؐ میں بھی شاعر بھی نبی پاک ؐ کی عظمتیں ہی بیان کرتے ہیں۔ اصل بات آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل کیے جانے کی ہے۔ نبی پاک ؐ کی تعلیمات کو سمجھ کے ان پر عمل کیا جانے سے ہی بہتر معاشرے تشکیل پاسکتا ہے ۔ایک مسلمان جب قران کی تلاوت کرتا ہے تو وہ بار بار نبی پاک ؐ کے بارے میں اللہ کے فرمودات پڑھتا ہے ۔قران میں اللہ پاک نے جابجا اپنے پیارے حبیب کی شان میں آیات اتاریں ہیں ۔مسلمان نماز پڑھتا ہے تو اس میں بھی نبی ؐ پر سلام بھیجتا ہے ۔نبی پاکؐ نے اخوت کا درس دیا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔صلہ رحمی کا حکم  دیا تھا ۔  نبی پاکؐ کی  تعلیمات پر اگر غور کیا جائے تو رحمت ِ عالم نے مسلم معاشرے کی بنیاد محبت، رواداری، احسان، تحمل اور صلہ رحمی پر استوار کی ہے۔ ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے والا ہی مسلمان کہلاتا ہے۔ رحم دلی  حسن سلوک آپس میں  ایثارو قربانی  دوسروں کے حقوق اپنے فرائض یہ سبق اسلام کا ہی ہے جو ہم بھول گئے ہیں۔ اسلام تو کھڑی فصلوں کی بھی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ جانوروں کے حقوق بھی سب سے پہلے اسلام نے ہی بیان کیے تھے ۔ آج حالت یہ کہ ساری دنیا ہمارے خلاف ہے ۔اور ہم مسلماں سب کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ کچھ دیر کے لیے ہم ساری دنیا کو دشمن سمجھنا چھوڑ دیں اور اپنے اعمال پر نظر دوڑائیں ۔اپنا محاسبہ خود کریں۔ نبی پاکؐ کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں سمجھ آجاتی ہے کہ حالات کو سمجھ کے کیے گئے فیصلے ہی دیر پا کامیابی کا سبب بنتے ہیں ۔آپؐ نے کس انداز میں اسلام کا پیغام پہنچایا ۔آج ایک خدا ایک قرآن ایک نبیؐ کو ماننے والے مسلمان  مختلف عقائد میں بٹ کر آپس میں ہی دست گریباں ہیں۔کاش جس نبی کا کلمہ پڑھتے ہیں اس نبی ؐ کے نام پر سب ایک ہو جائیں۔ اصل نقطہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان نماز روزہ کے باوجود نبی پاک ؐ کے اسوہ حسنہ سے بہت دور ہے ۔جو پیغام آپؐ نے دیا تھا ۔آج کے مسلمان کی عملی زندگی میں اس کاکوئی نمونہ نہیں ملتا ہے۔ ہمارے مبلغین اپنے مسلک کے حق میں دلیلیں تلاشتے رہتے ہیں ۔ہر وہ مبلغ جو جمعہ کے دن مسجد میں منبر ِ رسول پر بیان کر رہا ہوتا ہے۔ اُ س کی بات کو نہ صرف دھیان سے سنا جاتا ہے بلکہ اس پر عمل کی کوشش کی جاتی ہے ۔لیکن حاضرین مسجد امام صاحب سے یا مبلغ سے ان کی کہی بات کے بارے میں کوئی سوال نہیں کر سکتے ہیں ۔کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ جب کوئی منبرِ رسول پر قران و سنت کے حوالوں سے کوئی بات بیاں کر رہا ہوں تو وہ اپنی بات مکمل کر نے کے بعد سامنے سر جھکائے نمازیوں سے پوچھے کسی کے ذہن میں کوئی سوال ہے تو پوچھ سکتا ہے ۔آج کے دور میںایسا ہونا مشکل بلکہ ناممکن ہے ۔کیونکہ ہمارے علماء مجلس میں کسی کو سوال کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ ایک اور ستم یہ بھی کہ بڑے نامور مقررین جن کو سننے کے لیے لوگ دور و نزدیک سے دوڑے آتے ہیں اُن کے پاس عام آدمی سے گفتگو کا وقت نہیں ہوتاوہ مخصوص وقت میں مسجد تشریف لاتے ہیں اپنی بات کرتے ہیں اور پروٹوکول کے ساتھ محفل سے نکل جاتے ہیں۔ آج ہمیں اپنی زندگیوں میں نبی پاکؐ کی تعلیمات کو عملی شکل میں اختیار کرنا ہے۔ لیکن ہم وہی بات درست مانتے ہیں جسے مسلک کے ہمارے علماء کرام بیان کریں۔ ہم نے بچپن میں سنا تھا کہ جس محفل میں حبیب خدا کا ذکر ہو وہاں رب کی خاص رحمتیں اُترتی ہیں۔ علماء سے سنا ہے کہ بارگاہ مصطفے ایسی جگہ ہے جہاں بے دھیانی میں کی جانے والی بے ادبی سے بھی سارے نیک عمل ضبط ہو سکتے ہیں تو ایسے میں ایک مسلمان کو محفل نعت میںہاتھ اُٹھانے اور بلند آواز میں نعت خواں کا ساتھ دینے کی بجائے سر جھکاتے ہوئے رب سے دنیا و آخرت میں کامیابی کے لیے دعا کرنی چاہے۔ لیکن ہمارے نعت خواں حضرات جب کوئی شعر بیاں کرتے تو داد طلب نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھتے۔کسی شاعر کی لکھی نعت میں کچھ شعر اپنی طرف سے بھی شامل کر لیتے ہیں اور لوگوں کو کبھی ہاتھ اوپر کرنے کی تلقین کرتے ہیں تو کبھی زور سے اور زور سے ساتھ ساتھ شعر دھرانے کا کہتے ہیں۔ آئیے ان مبارک دنوں میں حضرت محمد ﷺ سے محبت کے پیش نظر آپؐ کی بتائے رستے پہ چلنے کی عملی کوشش کا عہد کریں۔ دھڑوں سے نکل کے اُمت بننے کی طرف سفر شروع کریں۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں