وہؐ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بھر لانے والا
اتر کر حراء سے سوئے قوم آیا
اوراک نسخہ کیمیاء ساتھ لایا
رحمتوں‘ برکتوں اور محبتوں ‘ سعادتوں اور سیادتوںکے ماہ مبارک کو ہم دیکھ رہے ہیں اس ربیع الاول کی 12 تاریخ کو شہنشاہ عالم ‘ ہادی عالم اور سرور عالمؐ کا ظہور مبارک ہوا۔ آپؐ کی تشریف آوری سے دنیا بدل گئی۔ عرب کی کایا پلٹ گئی، ظلم وگمراہی کی دلدل میں گری اور پھنسی انسانیت کو قرار اور منزل مل گئی۔ زندگی احساس‘ مروت ، عقیدت اور ارادت کی ریشمی دوڑی میں باندھ دی گئی۔خواتین کو تکریم کا منصب عطاء ہوا، رشتوں کو عزت واحتشام کی مالا پروئی گی۔ حضور کریمؐ کیا آئے زندگی اور زندگی سے منسلک سرگرمیوں کو خوشیاں مل گئیں۔ یقیناً ہم سیرت رسول پاکؐ کے گوشوں سے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو روشن اور منور کرسکتے ہیں۔ رسول کریم کی مبارک حیات کی روشنی زندگی کے ہر ہر پہلو کے لیے راہ ہدایت اور راہ نجات ہے ۔ہم اسوہ حسنہؐ کے متعین کردہ راستوں پر چل کر اپنی اپنی زندگیوں کو قابل رشک بنا سکتے ہیں۔
محسن انسانیت ؐ کی ختم نبوت کا ایک حسین پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ؐ نے عدالتوں کو عدل و احتساب کا درس دیا،یہ سبق آپ ؐ کی ذات بابرکات سے پہلے دنیاسے عنقا ہوچکاتھااورانسایت عدل و انصاف کو فراموش کر چکی تھی،آپ نے انبیائؑ کے اس درس انسانیت کی اس طرح تجدید کی کہ اس کا حق ادا ہو گیا،آپ ؐ کے گزرے آج کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس بیت چکے،اس دوران انسانیت نے بہت ترقی کر لی،علو م و معارف آسمان ثریاکو چھونے لگے ہیں،انسان کے قدم اس کائنات میں زمین سے کوسوں دور خلاؤں میں جا ٹکے ہیں،راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہونے لگی ہیں،تہذیب و تمدن اور ثقافت کے ڈانڈے مستقبل میں کمندیں ڈالنے کے قابل ہواچاہتے ہیں،فاصلے سمٹ گئے اوراور انسان اس جگہ پر پہنچ رہاہے جہاں پر چند سال پہلے تک بھی سوچنا محال تھا لیکن اس سب کچھ کے باوجود عدالتوں کے لیے کسی ازم نے،کسی دانشورنے،کسی نئے نظام حیات نے عدل و انصاف سے بڑھ کر کوئی درس تجویز نہیں کیایہ انسانیت اپنی ساری ترقیوں کے باوجود نبی آخرالزمان کے دیے ہوئے درس اعتدال و عدل اوحتساب سے آگے نہیں گزرسکی،ہماری عقل کہتی ہے کہ ہم اس کو آخری نبی مانیں گے جو اس درس میں کوئی اضافہ کر عمل عدالت کے ارتقائ مزید کاباعث بنے گاجبکہ ہمارا ہماراایمان کہتاہے کہ عدالتوں کے ارتقائ کا سفرمعراج مکمل ہو چکااور اب اس میں کسی اضافے کی گنجائش باقی نہیں رہی کیونکہ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘(مجھے اخلاقیات کے معیارات کی تکمیل کے لیے بھیجاگیاہے)اور ایمان ہر درجہ عقل سے کہیں بڑااور بزرگ و برتر ہے،سودرس عدل مکمل ہوچکااورچونکہ اس میں اب اضافہ ممکن نہیں اس لیے کسی نئے نبی کی بھی ضرورت نہیں۔محسن انسانیت ؐ نے عدل کے اطلاقی پہلویعنی بے لاگ احتساب کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات کو پیش کیا،اس سے بڑھ کر عدل و احتساب کی کوئی مثال کہاں مل سکتی ہے کہ عمرمبارک کے آخری ایام میں خود کو پیش کر دیاکہ میرے ہاتھوں کسی سے زیادتی ہوئی ہو تووہ اپنا بدلہ چکاسکتاہے۔ایک مسلمان آگے بڑھااورعرض کی ایک جنگ کے موقع پرآپ ؐنے صفیں سیدھی کرتے ہوئے میری ننگی کمر پر چھڑی رسید کی تھی،پس سورج کی آنکھیں موندنیں کو ہو گئیں جب ختم عدالت نے اپنی کمر ننگی کرلی اور فرمایاکہ آؤاپنابدلہ وصول کرلووہ مسلمان آیااور کمرمبارک سے لپٹ کرمہرنبوت کو بوسے دینے لگااور پھراس نے کہاکہ میری کیامجال کہ نبی سے بدلہ لوں میں تودراصل اس بہانے مہر نبوت کابوسہ لیناچاہتاتھا۔سود حرام کیالیکن سب سے پہلے اپنے گھرکا حضرت عباس بن عبدالمطلب کاسودمعاف کیا،قتل معاف کرنے کی ریت کاآغاز کیااورسب سے پہلے اپنے گھرکاحضرت حمزہ بن عبدالمطلب کاخون معاف کیااورغلام آزاد کرنے کاحکم دیاتو سب سے پہلے غزوہ حنین کے موقع پراپنے غلام آزاد کیے۔احتساب کی یہ مثال آج بھی دنیاکے قوانین میں نابود ہے۔دنیاکایہ مسلمہ رواج ہے کہ جو طبقہ قانون بناتاہے وہ اپنے طبقے لیے خصوصی مراعات کا تعین کرتاہے یاجو خاندان قانون بناتاہے وہ اپنی نسل کے لیے برہمنی تفوقات کاپہلے سے دائرہ کھینچ لیتاہے لیکن خود احتسابی کی یہ مثال کہیں بھی تو نہیں ملے گی ختمی مرتبتؐ نے خود اپنی نسل کے لیے مسلمانوں کے سب سے بڑے فنڈ’’زکوۃ‘‘کو ممنوع قرار دے دیااور اقرباپروری کے دروازے ہمیشہ کے لیے بندکرکے تو بے لاگ احتساب کا شیریں چشمہ فیض تاابد جاری فرمایا یہ کہ کر کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے…یہاں ہم حکومت کی طرف سے عشرہ رحمۃ لعالمینؐ منانے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔یقیناً عشرہ رحمت سے نئی نسل اور نئی پود کو سیرت النبیؐ سے روشنی میسر آئے گی۔ ففتھ جنریشن کے ایسے ماحول میں سیرت پاک کا فانوس روشن رکھنا بہت ضروری ہے۔ اہل علم، اہل بصیرت ‘ علماء کرام اور مشائخ عظام کو اس طرف فوری اور ضروری توجہ دینا چاہیے۔