پیر  ، 6ربیع الاول    1444ھ،  3اکتوبر  2022ء

حکومت کسان مذاکرات ناکام۔ پولیس، ایف ایس سی کی بھاری نفری خیابان چوک پہنچ گئی 
حکومت ذرا رحمدلی سے کام لے اور کسانوں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہ کرے۔ ان کے جائز مطالبات پر غور کر کے ان کی منظوری دے۔یکدم نہ سہی آہستہ آہستہ ہی آگے بڑھے۔ اس وقت ہمارے پڑوس میں دیکھ لیں جہاں کسانوں کو خاص طور پر بھارتی پنجاب کے کسانوں کو جو بھرپور مراعاتیں حاصل ہیںان کی وجہ سے یہ ہمارے پنجاب سے چھوٹا پنجاب پورے بھارت کی خوراک کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ ہمارا پنجاب تو بھارتی پنجاب سے بہت بڑا ہے۔ اگر ہم بھی اپنے کسانوں کو ڈیزل ، بجلی ، پانی ، زرعی ادویہ، کھاد اور بیج ارزاں نرخوں پر فراہم کریں تو ہمارا ملک بھی زرعی اجناس میں خود کفیل ہو سکتا ہے مگر نجانے ہمارے حکمرانوں کی نیت میں کھوٹ ہے یا کسانوں کی نیت کھوٹی ہے جس کے زیر اثر زرعی شعبہ میں متواتر گراوٹ آ رہی ہے اور ایک زرعی ملک اجناس بیرون ملک سے منگوا رہا ہے۔ اب شاید بھارتی پنجاب کے کسانوں کے دیکھا دیکھی ہمارے کسانوں میں بھی دھرنا دے کر بات منوانے کی امنگ جاگی ہے۔ وہ کئی دن سے اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ اگرچہ تعداد زیادہ نہیں مگر وہ اٹھنے کو تیار نہیں۔ حکومت بھی لگتا ہے ان سے دو دو ہاتھ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ یہ توڑ پھوڑ جلائو گھیرائو کی بجائے اگر دونوں فریق مل بیٹھ کر کوئی راہ حل تلاش کریں تو بہتر ہے۔ پہلے ہی ملک کورونا کے ہاتھوں صنعتی اور اب سیلاب کے ہاتھوں زرعی تباہی سے دوچار ہے۔ معیشت کی حالت بری ہے ایسے میں ملک افراتفری کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ 
٭٭٭٭٭
بلاول ہائوس اور جاتی عمرہ بھی پاکستان میں ہیں، علی امین گنڈا پور 
خدا جانے ہمارے ہاں سیاستدانوں کو کیا ہو گیا ہے۔ وہ بات بات پر اشتعال انگیز بیانات دے کر جلتی پر تیل کیوں چھڑکنے لگتے ہیں۔ زلفوں والی سرکار المعروف شہد کی بوتل والا علی امین گنڈا پور اب جلال میں ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کسی نے بنی گالہ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی جرأت کی تو اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ اب قانون جائے بھاڑ میں، ان کے نزدیک تو وہی پشتو والی بات ’ٹوپک زمہ قانون‘ ہی اصول اور قانون کا درجہ رکھتی ہے۔ انھوں نے جس طرح جاتی عمرہ اور بلاول ہائوس کا ذکر کیا ہے خدا جانے اس میں سے مولانا فضل الرحمن اور ایمل ولی کے حجروں کو شامل کیوں نہیں کیا۔ شاید یہ دونوں بھی پشتون ہیں۔ علی امین گنڈا پور کو ڈر ہو گا کہ ان حجروں سے جوابی کارروائی ہو سکتی ہے۔ وہاں کارکن ہوں یا نہ ہوں خودکار بھاری بھرکم اسلحہ ہی حملہ آوروں کا حوصلہ پست کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس لیے انھوں نے سندھ اور پنجاب کے گھروں کو ٹارگٹ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ بلاول ہائوس کراچی میں ہے اور جاتی عمرہ لاہور میں۔ کیا اس طرح کی زبان استعمال کر کے وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اس سے تعصب کی بو آتی ہے۔ کل کوئی اور سیاستدان زمان پارک کو یا بنی گالہ کو نشانہ بنانے کی بات کرے تو کیا یہ اچھا لگے گا۔ سیاستدانوں کو خاص طور پر جو ملکی سطح کے ہوں وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ نفرت سے ہٹ کر پیار اور امن کی راہ دکھانی چاہیے۔ 
٭٭٭٭٭
راجن پور میں ڈاکوئوں نے وین سے 4 مسافر اغوا کر لیے 
یہ حال ہے ہمارے معاشرے کا، جہاں ایک طرف سیلاب نے تباہی مچائی ہے دوسری طرف ڈاکو چور اور لٹیرے بچے کھچے مال پر ہاتھ صاف کرنے آن دھمکے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ بہت سے علاقوں میں جہاں سیلاب متاثرین پناہ گزین ہیں ڈاکو اور چور وارداتوں میں مصروف ہیں۔ اب یہاں قانون کی عملداری بھی سیلاب میں بہہ چکی ہے اس لیے کسی کو قانون کا خوف نہیں۔ لٹنے والے اب جائیں تو جائیں کہاں! 
اب کس کو سنائیں گے اس درد کا افسانہ
سمجھے تھے جسے اپنا وہ ہو گیا بیگانہ 
اس کے بعد اب یہ نئی اغوا کی وارداتیں بھی ان علاقوں میں ہو رہی ہیں جو پہلے ہی سیلاب سے تباہ ہیں۔ کچے کے علاقے خدا جانے اس سیلاب سے تباہ ہونے سے کیوں اور کیسے بچ گئے۔ اس علاقے کو تو پہلے غرق دریا ہونا چاہیے تھا۔ یہاں ڈاکو ، چور، لٹیرے، رسہ گیر آرام و اطمینان سے رہتے ہیں۔ غور طلب بات ہے اگر سیلاب گناہوں کی وجہ سے آیا ہے تو پھر یہ کچے کا علاقہ پہلے غرق کیوں نہیں ہوا۔ اب راجن پور میں گزشتہ روز ڈاکو مسافر وین سے 4 افراد کو اغوا کر کے لے گئے۔ صاف بات ہے کہ یہ اغوا برائے تاوان کی واردات ہے ورنہ ڈاکوئوں نے کسی کو مہمان تھوڑی بنانا ہوتا ہے۔ اب اطلاع ملنے پر پولیس نے روایتی طور پر کچے کے علاقے میں آپریشن شروع کر دیا ہے تاکہ ان مغویوں کو بازیاب کرایا جا سکے۔ ایسا اکثر ہوتا رہتا ہے۔ اس واردات سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکو ابھی زندہ ہیں، غرقاب نہیں ہوئے۔ سیلاب اترتے ہی انھوں نے اپنا کاروبار پھر شروع کر دیا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
جب بری طرح ہارتے ہیں تو مجھے پریس کانفرنس کے لیے بھیج دیتے ہیں: شان ٹینٹ 
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بائولنگ کوچ کی خوش قسمتی ہے کہ انھیں پریس کانفرنس میں وضاحت کے لیے بھیجا جاتا ہے ورنہ یہ موقع کسی کو کہاں نصیب ہوتا ہے۔ اب اگر ٹیم اچھا کھیلے اور جیتے تو پھر کپتان، سلیکٹر اور پی سی بی کے چیئرمین سمیت نجانے کتنے اور لوگ میڈیا کے سامنے آ کر اپنا تقریر کا شوق پورا کرتے ہیں۔ ویسے بھی کامیابی میں سب آگے بڑھ کر اس کا کریڈٹ لیتے ہیں مگر ہار میں کوئی آگے نہیں آتا۔ شکست کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا۔ اب یہ شان ٹینٹ کی خوش قسمتی ہے کہ اسے یہ بارگراں اٹھانے کے لیے چنا جاتا ہے۔ وہ بے چارے خود بھی اس پر حیران و پریشان ہیں کہ تلخ ماحول میں انھیں کیوں ٹیم اور کھلاڑیوں کی وضاحت دینے کے لیے آگے کیا جاتا ہے۔ کسی اور کو ’چڑھ جا بیٹا سولی پر‘ کیوں نہیں کہا جاتا۔ گزشتہ روز انھوں نے اسی پر احتجاج کیا اور ان کا یہ جملہ وائرل ہو گیا جسے عوامی سطح پر شہرت ملی اور لوگ اس پر طرح طرح کے رنگ برنگے تبصرے کر رہے ہیں۔ شان ٹینٹ ہماری کرکٹ ٹیم کے ہونہار بائولنگ کوچ ہیں، وہ دل چھوٹا نہ کریں۔ بس کوئی جا کر انھیں ’بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘ والا شعر سنا کر بدنام ہو کر مشہور ہونے کے فوائد بھی گنوا دے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن