عوض یک دو نفس

Oct 03, 2022

 کیا تقریب تھی ؟ اب کچھ یاد نہیں آرہا۔ اسی میں مقصود بٹ نے کالم نگار کوپہلی بار اپنے جواں عمر، خوبرو بیٹے عاصم عزیز بٹ سے ملوایاتھا۔ اس پہلی ملاقات میں کسے علم تھا کہ عاصم عزیز بٹ سے کالم نگار کی یہ پہلی ملاقات آخری ملاقات بھی ہے ۔ آسمان والے نے اپنی مخلوق کو اس کی برداشت سے زیادہ باخبر بھی نہیں کیا۔ بندے کو نہیں بتایا گیا کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔ اللہ اپنے جن اللہ والوں کو بتا دیتا ہے انہیں برداشت اور کلیجہ بھی تو بخشتا ہے۔ مقصود بٹ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز گوجرانوالہ وکالت سے کیا۔ ساتھ ساتھ صحافت میں بھی عمل دخل رکھا۔ گوجرانوالہ میں صحافت کو خوشامد سے باز پرس کی پٹری پر چڑھانے میں ان کا بھی حصہ بہت ہے ۔ اس زمانہ میں حافظ آباد ابھی ضلع نہیں بنا تھا۔ یہ گوجرانوالہ کی دو ر افتادہ تحصیل تھی۔ وہاں کا مہدی بھٹی خاندان آج سے کچھ کم طاقتور نہ تھا۔ ان کے ایک بگڑے نوجوان کے بارے مقصود بٹ کے حوالے سے ان کے اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی ۔ اس خبر نے مقصود بٹ کے دوستوں ، عزیزوں کو پریشان کر دیا۔وہ ایک عرصہ تک کچھ ہونے کے منتظر رہے ۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا۔یہ گوجرانوالہ میں ترقی کے مواقع کم پاتے ہوئے لاہور چلے آئے ۔ لاہور نے کسی باصلاحیت نوجوان کو کب واپس جانے دیا ہے ۔ علامہ اقبالؒ سمیت جو بھی نابغہ روزگار یہاں آئے پھر وہ اسی مٹی میں دفن ہوئے ۔ موت کیا ہے ؟ کیا یہ صرف زندگی کا انجام ہے ؟ اکبر الٰہ آبادی پوچھتے ہیں: ۔ 
ہے موت میں ضرور کوئی راز دلنشیں 
مرنے کے بعد کچھ نہیں‘ ارے یہ تو کچھ نہیں 
یہ راز دلنشیں حیات بعد موت کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ۔ مصر کے قدیم باشندے بھی یہی یقین رکھتے تھے ۔وہ احرام مصر میں مردے کے ساتھ زندگی گزارنے کے اسباب نوکر چاکر سمیت دفن کرنا نہ بھولتے ۔ ایک اتوار کا دن تھا ۔ فیس بک سے پتہ چلا کہ مقصود بٹ کی دنیا اجڑ گئی ۔ خبر یوں تھی کہ اس کا جواں سال بیٹا عاصم عزیز بٹ دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گیا۔ نماز جنازہ کاڈیڑھ بجے ماڈل ٹائون ای بلاک جامع مسجد پڑھی جانے کا اعلان تھا۔ نماز جنازہ کے بعد کالم نگار مسجد کے لان میں کھڑا تھاکہ مقصود بٹ سے مل سکے ۔ انہوں نے گزرتے ہوئے کالم نگار کووہاں کھڑے دیکھا تورک کر بولے !علامہ صاحب دعا کریں ۔ کالم نگار سوچتا رہ گیا۔ کیا دعا مانگوں ۔ مرحوم کی مغفرت کیلئے یا لواحقین کیلئے صبر کی دعا ۔لیکن صبر کہاں آتا ہے ۔ میرے آقا ؐ بھی اپنے بیٹے کی وفات پر اپنے آنسو کب روک سکے تھے۔ کھڑی شریف کے درویش نے انسانی بے بسی اور بیچارگی یوں بیان کی ہے :۔ 
مشکل بنی ہر مشکل نالوں تے دکھاں تنبوتانے 
دم مارن دی واہ نئیں  مولا تیریاں توں  ای جانے 
اپنی مصلحتیں وہ ہی خوب جانتا ہے ۔ ادھر ہماری مجال اور طاقت کہاں کہ اس میں کوئی عذر اعتراض ڈھونڈ سکیں۔ عاصم عزیز بٹ کی میت مسجد سے باہر لیجانے کیلئے اٹھائی جانے لگی ۔ بندہ دیکھتا ہے ، سوچتا ہے ، الجھتا ہے ۔ یہ تدفین کیا ہے ؟ بندہ اپنے پیاروں کو مرنے کے بعد اپنے پاس کیوں نہیں رکھ سکتا؟ہم یہی کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ اس کی امانت تھی ، وہ اپنے پاس لے گیا۔ واہ ! کسی نے کیا خوب کہا ہے :۔
میرے ہون دا تماشا جدوں مکیا 
مداری مینوں نال لے گیا 
انسان کی بساط کیا ہے کہ وہ انکار کر سکے ؟ میلہ بھریا ہو یا اجڑا۔ لڑکپن ہو یا جوانی یا پھر بڑھاپا۔ موت کا بلاوا ماننا پڑتا ہے ۔ 
اساں بھریا میلہ چھڈ جانا 
جدوں چٹھی آئو جور آور دی 
ارونا فلاسی کو بیسویں صدی کی تقریباً تمام بڑی شخصیتوں سے انٹرویو کا اعزاز حاصل ہے ۔ برٹرینڈ رسل سے اپنے انٹرویو کے آخر میں پوچھنے لگی۔انٹر ویو ختم ہوا۔اب میں آپ سے کوئی دلچسپ بات سننا چاہتی ہوں۔ انٹر ویو اس کے سمندر کنارے فلیٹ میں ہو رہا تھا۔وہ نوے بانوے برس کا بوڑھافلاسفر، ارونا فلاسی کے سہارے اٹھا، بالکونی کی طرف بڑھا ، وہاں کھڑے ہو کر کہنے لگا۔ دیکھو! ساحل پر ان ہنستے بستے جوڑوں کو دیکھو ۔اک روز ان سب کو مر جانا ہے۔ لیکن کسی کو موت یاد نہیں۔ یہ انسانی زندگی کا سب سے بڑا طربیہ بھی ہے اورالمیہ بھی ۔پھر کہنے لگا۔ انسانی زندگی کا حسن بھی یہی ہے ۔ 
کالم نگار نے بھی اپنے مرشد پروفیسر فضل حسین سے پوچھا تھا، موت کیا ہے ؟انہوں نے جواب میں ایک شعر سنایا: 
اک دن ڈونگی نیندر سونا
مرنا کیہ اے کجھ وی نئیں
 کالم نگار کے والد محترم علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور سے مقصود بٹ کے ارادت، عقیدت اور محبت کے مراسم تھے ۔ اسی باعث وہ ملاقات پر کالم نگار سے بڑی محبت کا اظہار کرتے رہتے ۔ زبان و بیان اور جرأت انہیں حضرت آغاشورش کاشمیری کے ہاں سے نصیب ہوئی ۔ پھر ان میں جرأت اتنی فراواں تھی کہ راحیل شریف کو ایک مقروض ریاست کی جانب سے ڈی ایچ اے لاہور کے ساتھ نوے ایکڑ زمین کے انعام و اکرام کی خبر انہوں نے ہی لیک کی تھی ۔ 
 کالم نگار نے شاعر لاہور شعیب بن عزیز سے کھانے کے بعد تازہ کلام کی فرمائش کی ۔ جو یوں پوری ہوئی : 
ہمہ آواز ہے باغ ہستی 
کبھی بلبل کبھی غنچہ چہکے 
کیسی خاموش تھی بزم احباب 
سب تیرے نام پر کیسا چہکے 
ہر حباب ایک کہانی ہے یہاں
موج چپ ہو تو یہ  دریا چہکے 
میاں ہر حباب یہاںاک کہانی ہے ۔پل بھر میں ختم ہو جانے والی کہانی ۔پھر ہے عوض یک دو نفس قبر کی شب ہائے دراز۔ 

مزیدخبریں