امریکا کے شہنشاہ ِ عالم جارج بش نے جب تخت سنبھالا تو ان کی حکومتی پالیسی کی تقریر کا عنوان تھا ’نیو ورلڈ آرڈر۔‘ انھوں نے میرے تجویز کردہ ان چار ارکان کو اپنی تقریر میں اس طرح گوندھ دیا تھا کہ میں جو انسانی معاملات میں بہتری لانے کی باقاعدہ ایک بیماری میں مبتلا ہوں ان کی تقریر نے مجھے ایسی دوا دے دی کہ میں اپنے آپ کو تندرست سمجھنے لگی مگر اس نے تو تخت پر بیٹھتے ہی لاکھوں بے گناہوں (افغانی اور عراقی) کو تختہ دار پر کھینچ لیا۔ اپنے کالم کے عنوان کی وجہ سے مسٹر بش کے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کو اس کی اپنی زبان (انگریزی) میں بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ فرمایا تھا:
I want to redraw a map of the globe. It will be called 'a new world order'. It will guide the mankind and introduce an orderly living to the whole human community. Surely, I am carrying God's work, in this needy and frectured world. Having this mission if I had to carry the crucids, I will. It will give the mankind I way to liberty and democratic governments.
پھر بش نے صلیبی جنگوں کی آڑ میں لاکھوں انسانوں کو اپنے فوجیوں کے بوٹوں تلے کچل دیا اور میں نے انسانی حقوق کی اس حفاظت کی نئی تاریخ پر خون اگلتے لاکھوں الفاظ لکھ دیے۔ بہرحال انسان آہستہ آہستہ اپنی بداعمالیوں کے سمندر میں ڈوب رہا ہے۔ صرف سر نظر آرہا ہے۔ امریکا کے ہر ظلم اور جبر کے پیچھے اس کا تاریخی پس منظر ہے۔ جس طرح کسی بھی اچھے یا برے انسان کا انفرادی طور پر اس کا حسب نسب دیکھا جانا ہے جس سے کسی بھی فرد کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ امریکا کی اپنی کوئی شناخت نہیں۔ 1492 ء میں ایک اطالوی نیوی گیئر کرسٹو فر کو لمبس نے اپنے ایک طویل بحری سفر کے دوران دریافت کیا اور پھر اردگرد کے کچھ قبیلے وہاں آباد ہونا شروع ہوگئے اور یہ ایک ملک بن گیا جس میں ہر نسل و رنگ کے لوگ آباد ہوگئے سب سے زیادہ قبیلے کا لے لوگوں کے تھے۔ اس لیے اب کالے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکا ہمارا ہے ۔ اب سب سے زیادہ زیادتیاں امریکی لوگ ان پر کرتے ہیں۔ اس لیے امریکا اپنی شناخت کو منوانے کے لیے ہر ظلم و زیادتی کامرتکب ہوتا ہے۔ اس طرح عرب جو ایک بے آب وگیاہ صحرا تھا تو جب اس میں لیکوڈ گولڈ (پٹرول) نکل آیا تو یہ قوم بھی اپنے احساس کمتری کو مٹانے کے لیے الٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگی، صرف اپنے لباس کی شناخت باقی رکھی ہے۔
کھدائی جس طرح کی بھی ہو کچھ نہ کچھ عطا ہی کرتی ہے۔ زمین، دریا یا پہاڑ کی کھدائی کی محنت کے بعد کوئی نہ کوئی خزانہ ہاتھ لگ جاتا ہے ۔ میٹھا پانی، تیل، گیس، ہیرے جواہرات اور بہت کچھ۔ میں جب دنیا کے حالات پر نظر ڈالتی ہوں تو اپنے غوروفکر کا تیشہ لے کر کھدائی شروع کردیتی ہوں اور جو کچھ ہاتھ آتا ہے اسے انسانوں کے ساتھ شیئر کرتی ہوں۔
دکھ اس بات کا ہے کہ زندگی بہت مختصر ہے اور ہم سب کا م بہت زیادہ کررہے ہیں، کارآمد کم اور بیکار زیادہ۔ موت کی حتمی حقیقت کو سامنے رکھیں تو اتنی زیادہ اس بے معنی مشقت کی ضرورت نہیں۔ ہاں، اگر زندگی امر ہوتی تو ہرلمحہ کام کا متقاضی ہوتا۔ ہماری ساخت دو اجزائے ترکیبی سے بنی ہے یعنی جسم اور روح مگر ہم سب ایک ہی جزو جسم کی آؤ بھگت اور ہارسنگھار میں مصروف دوسرے حصے کو غیر ضروری سمجھ کر دودھ سے مکھی کی طرح نکال دیا ہے۔اس لیے اب صوفیا اور اولیا پیدا نہیں ہوتے حالانکہ روحانیت کی اپنی توقیر اور مقام ہے۔صوفیا اور اولیا نے اس دوسرے ہنر کی آبیاری میں بہت مشقت کی اور اپنا تن من لٹا دیا۔ انھوں نے انسانوں کو سکون اور طمانیت کے خزانے عطا کیے۔ ان کو منتوں مرادوں کی قبولیت کی جھولیاں بھر دیتے تھے۔
کل ٹی وی پر ایک جلسے میں ایسے ہی صوفیا کرام کی ایک بیٹی کو بے حجاب دیکھا۔ دکھ سے دوچار ہوگئی ہوں اس کے آباؤ اجداد کی خانقاہیں تو اب بھی پریشان حال اور بے کس لوگو ںکے لیے سکون اور اطمینان کے مرکز ہیں۔ اِن برگزیدہ ہستیوں پر لاکھوں عقیدت مندوں کا یقین اور ایمان ہی ان کی دولت ہے۔ یہ بی بی ان عقیدت مندوں کو کیا دے سکتی ہے۔یہی کہ دوچار سڑکیں یا دس بارہ بسیں؟ ان کی حب ِ حکومت یا خواہش ِ نمود و نمائش نے کتنے عقیدت مندوں کو بے سکون کردیا ہوگا۔ بہرحال موجودہ حالات میں جو سہانے خواب بنتی رہتی ہوں وہ آپ بھی سنیں اس کرۂ ارض پر کسی بھی ملک کی کو سرور نہ ہو سب ملکوں کے سب لوگ ایک قبیلے کے طور پر رہیں جو ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں۔ جنگوں پر جتنی طاقت اور دولت صرف کی جاتی ہے وہ ہرانسان کو مساوی حقوق دینے پر خرچ ہو کیونکہ ہم سب نے موت کی ایک ہی صف پر بیٹھنا ہے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک انسان اگر دوسرے انسان کو قتل کردے تو پھانسی پائے لیکن جنگوں میں جو آدمی زیادہ سے زیادہ انسانوں کو قتل کرے اسے گلے میں سونے کے تمغے ڈالے جاتے ہیں اور پھر ان کی قبروں کو بھی سیلوٹ کیے جاتے ہیں۔