کا بل کے تعلیمی ادارے پر خود کش حملہ
فر حا ن علی
farhan_ali702@yahoo.com
افغا نستان کے دارلحکومت کابل میں تعلیمی ادارے پر ہو نے والے دہشتگر دی کے واقعہ نے افغا ن عبو ری حکو مت کیلئے کئی سوالا ت کو جنم دیا ہے۔ افغا ن حکو مت ایک طرف افغا نستان میں تعلیم کو فروغ دینے میں کو شاں ہے تو دوسر ی طرف افغا نستا ن میںحکو مت مخا لف دہشتگر د گرو ہ تعلیمی ادارو ں اور مذہبی مقامات کو دہشتگر دی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ دارلحکو مت کا بل کے قر یب دشت بر چی کے تعلیمی ادارے میں ہو نے والے خود کش دھما کے میں ہلا کتو ں کی تعداد 35 اور82افراد زخمی ہو ئے ہیںایک زخمی طالب علم نے بتایا کہ ہلاک و زخمی ہونیوالوں میں زیادہ تر لڑکیاں ہیں۔ خود کش دھما کے میں ہلا ک اور زخمی افراد میں زیا دہ تعداد طلبا کی ہے زیادہ تر زخمیوں کی حالت نازک ہونے کے سبب ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ خو دکش دھما کہ جمعہ کے روز صبح کا بل کے تعلیمی مر کز میں ہوا افغانستان میں عام طور پر جمعہ کے روز اسکول بند ہوتے ہیں۔ جس وقت خود کش بم دھما کہ ہو ا اس وقت طلبا ایجوکیشن سینٹرمیں یو نیو رسٹی پر یکٹس امتحا ن دے رہے تھے اور وہاں 600 سے زائد طلبا موجود تھے خو د کش حملہ آو ر نے تعلیمی مر کز کے باہر خود کو اڑایا دھما کے کی آواز دور تک سنا ئی دیں آواز سن کر اہل علا قہ اپنے عزیزورشتہ داروں کو ابتدائی طبی امداد کیلئے امتحا نی سنٹر پہنچے۔ خود کش دھما کے اطلا ع ملتے ہی اہل خانہ علاقے کے اسپتالوں میں پہنچ گئے جہاں ایمبولینسز متاثرین کو لے کر پہنچ رہی تھیں۔ خود کش دھما کے میں مرنے والوں اور زخمیوں کی تصدیق شدہ فہرستیں ہسپتا ل انتظا میہ نے دیواروں پر چسپاں کر دیں۔میڈ یا رپورٹس میں بتا یا گیا کہ تعلیمی ادارے پر کئی افراد نے حملہ کیا جن میں سے ایک نے کلا س روم میں جا کر خو د کو دھما کے سے اڑا دیا یہ دھما کہ دشت بر چی کے قر یب ہو ا جو مغر بی کا بل میں شعیہ اکثر یتی علا قہ ہے جنہیں ماضی کے حملوں میں نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو کابل کی وزیر اکبر خان مسجد میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ افغا ن عبوری حکو مت میں وزارت داخلہ کے تر جما ن عبد النافع نا فع ٹاکو ر نے ٹو یٹ میں کہا کہ کا ج نا می تعلیمی مر کز پر حملہ کیا گیا۔حملے کی نو عیت اور ہلا کتو ں کا اندازالگا نے کیلئے سیکیو رٹی ٹیمیں جا ئے وقو عہ پر پہنچ گئیں۔
طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہری اہداف پر حملہ کرنا دشمن کے غیر انسانی ظلم اور اخلاقی معیار کی کمی کو ثابت کرتا ہے۔تاہم خودکش دھماکے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔ہزارہ کمیونٹی نے حریف داعش گروپ کی طرف سے دعویٰ کرنے والے متعدد حملوں کا نشانہ بنے پر برسراقتدار طالبان پر ظلم و ستم کا الزام لگایا ہے۔ ماضی میں ہزارہ برادی پر ہونے والے اکثر حملوں کی ذمہ داری داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں نے قبول کی تھی اور اس علاقے کے تعلیمی مراکز شدت پسندوں کے حملوں کی زد میں رہے ہیں۔ گزشتہ برس طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے کچھ روز قبل بھی اسی علاقے کے ایک اسکول کے قریب 3 بم دھماکوں میں 85 افراد جاں بحق اور 300 زخمی ہو گئے تھے اور اس کے ایک سال بعد دشت برچی میں ہی ایک تعلیمی مرکز میں خود کش حملے میںدرجنوں طلبا و طالبات جاں بحق ہوگئے ۔ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر درس گاہ پر خود کش دھماکے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنے کا عندیہ دیا ہے اور لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
ہزارہ کمیونٹی داعش گروپ کی طرف سے دعویٰ کرنے والے متعدد حملوں کا نشانہ بنی ہے۔ اس کے پہلے حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی تھی تاہم دوسرے حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کی تھی تاہم افغان طالبان کی حکومت نے تعلیمی ادارے کو خود کش حملے کا نشانہ بنانے کے واقعے کی شدید مذمت کی تھی۔ 2021 میں طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان عوام کی حفاظت یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا تاہم گزشتہ کچھ مہینوں میں تواتر سے مساجد اور شہری علاقوں میں دھماکے ہوئے ہیں۔افغا ن دارلحکو مت کا بل کے قر یب دشت بر چی کے تعلیمی ادارے پر حملے کو 16دسمبر 2014کوآرمی پبلک سکول پشاور پر ہو نے والے دہشتگرد حملے کی طر ح قرار دیا جا رہا ہے جس میں 141افراد ہلا ک ہو ئے تھے جن میں 132طلبا شہید ہو ئے تھے۔
وزارت خا رجہ نے کا بل تعلیمی ادارے پر خود کش حملے پر مذمتی بیا ن میں کہاکہ پا کستان نے کابل کے علاقے دشت برچی میں تعلیمی ادارے پر ہونے والے بزدلانہ دہشت گردانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہیں جس میں قیمتی معصوم جانیں ضائع ہوئیں اور متعدد زخمی ہوئے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام سوگوار خاندانوں سے گہرے اور دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔دفتر خارجہ کے مطابق ہم دہشت گردی کی لعنت کے خلاف جنگ میں اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں۔افغا نستان کی عبوری طالبان حکومت نے کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد قوم کو محفوظ بنا نے کا عزم رکھتی ہے ، لیکن حالیہ مہینوں میں مساجد اور شہری علاقوں پر ہونے والے حملوں نے اس بیانیے کو چیلنج کر دیا ہے۔
دوسری جانب عبوری طالبان حکو مت نے اقتدار سنبھا لنے کے بعد سے عوام کے تحفظ کے لیے بہت کم اقدامات کیے ہیں خاص طور پر شیعہ ہزارہ کمیونٹی کیلئے جنہیں اسلامی ریاست (آئی ایس) نے بڑے پیمانے پر اسکولوں، مساجد، تربیتی مراکز اور منظم طریقے سے نشانہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں افغا نستان حکو مت کی کوتاہی اور کمیشن کے اقدامات نے افغانستان کے لوگوں خصوصاً نسلی اور اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والوں کی زندگیوں کے لیے خطرات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ تعلیمی اداروں پر دہشتگر د حملے عبوری طالبان حکو مت کے لیے ایک بڑ ا چیلنج بنتے جا رہے ہیں ۔کیو نکہ طا لبا ن حکو مت نے اقتدار سنبھا لتے ہی تعلیم پر تو جہ دینے خصوصا لڑ کیو ں کو تعلیم دینے کو اپنی تر جیحا ت میں شامل کیا تھا۔ مگرحا لیہ دہشگردی کے واقعات سے افغا ن شہر یو ں کو تعلیم کی طرف راغب کر نے کی بجا ئے تعلیم سے دورکر دیا گیا ہے۔