یہ کالم میں نے 2014 عمرانی دھرنے کے دوران لکھا تھا۔ آج پھر پڑھیں اور میری پیشگوئی کے لفظ بہ لفظ سچ ثابت ہونے پر غور فرمائیں۔ ”عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنوں اور احتجاج کی روایت ڈال کر نہ صرف اپنے پاﺅں پر خود کلہاڑی ماری ہے بلکہ مطالبات منوانے کا ایک نیا راستہ دکھا دیا ہے۔ ایک ایسی مثال قائم کر دی ہے جو صرف نواز حکومت کے خلاف نہیں بلکہ عمران خان اور کسی بھی جماعت کے خلاف استعمال ہو گی۔ میرا یہ کالم محفوظ کر لیں تاکہ مستقبل قریب میں بطور حوالہ کام آ سکے کہ بالفرض نواز شریف مڈٹرم الیکشن کا اعلان کر دیتے ہیں، الیکشن ہو جاتے ہیں، عمران خان جیت جاتے ہیں، وزیراعظم پاکستان بن جاتے ہیں مگر۔۔۔ وزیراعظم سے استعفیٰ لینے اور حکومت کا پہیہ نہ چلنے کا جو طریقہ کار انہوں نے متعارف کرا دیا ہے کیا مسلم لیگ نواز اور دیگر جماعتیں ان کی پیروی نہیں کریں گی؟۔ بلاول بھٹو جو حقیقت میں نوجوان ہے، اس کے جیالے عمران خان کو سکون سے پانچ سال حکومت کرنے دیں گے؟ بلاول بھٹو کو سیاسی مواقع میسر آ گئے، اس کے نانا کی بنائی ہوئی جماعت ہے، اس کے نانا اور ماں نے جانیں گنوائیں، اب وہ آرام سے کیسے بیٹھ سکتا ہے۔ کبھی سوچا آپ نے کہ عمران خان کی حکومت آجائے اور پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں پانچ سال ہاتھ پر ہاتھ رکھے خاموشی سے گھر بیٹھ جائیں؟جو بو یا وہی کاٹا جاتا ہے۔ وزارت اعظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی ”گو عمران گو“ اور نفرتوں کی ڈراﺅنی ڈائن ان کا تعاقب کرنے لگے گی۔ عمران خان کو اکسانے والوں کا مقصد ب±غضِ نواز تھا سو وہ انہوں نے حاصل کر لیا۔ امپائر کی انگلی اور قربانی سے پہلے قربانی کا خواب پورا نہ ہو سکا تو نفرتوں اور انتقام کا موبائل دھرنا شہر شہر چل دیا۔ ان کی اپنی جماعت کا صدر اٹھا اور اس نے سب کو داغی بنا دیا۔ اس تمام کھیل میں ”خلائی مخلوق“ بھی بے نقاب ہوئی اور کسی کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ عمران خان نے وزارت عظمیٰ کے حصول کے لئے ایک ایسا شارٹ کٹ اختیار کرنا چاہا جس کے دوررس نتائج نقصان دہ ہیں۔ ضد اور تکبر کا انجام خوفناک ہوتا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب یہی نعرے عمران خان کا تعاقب کریں گے، مسلم لیگ نون چونکہ اقتدار میں ہے لہٰذا اس کا منفی ردعمل ”ظلم“ کہلائے گا۔ جس طرح مولانا قادری اور چودھریوں کو لاشیں پسند ہیں اسی طرح شیخ رشید ،محمود قریشی اور جہانگیر ترین کو مسلم لیگ نون کا منفی ردعمل فائدہ پہنچا ئے گا۔ یہ لوگ ہر وہ حرکت کریں گے جس سے مسلم لیگ نون کا چہرہ مسخ کیا جا سکے۔ وزیراعظم نعروں کی وجہ سے گھر نہیں جائیں گے اور نہ ہی مڈٹرم الیکشن دکھائی دیتے ہیں کیونکہ جب بھی ”گوگو“ کے نعرے لگے حکومتوں نے مدت پوری کی البتہ جس روز ”رو عمران رو“ کے نعرے زور پکڑ گئے اس روز صورتحال مزید تشویشناک ہونے کا اندیشہ ہے۔ برائے مہربانی ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں، اپنا تھوکا کبھی خود بھی چاٹنا پڑ جاتا ہے۔ کسی کے لئے گڑھا کھودیں گے تو کسی نہ کسی روز خود بھی اس میں گر سکتے ہیں۔ استعفیٰ نہ ملنے سے یہ ”انگور کھٹے“ کبھی اپنے حلق کی ہڈی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ نفرتوں، گالی گلوچ اور غنڈہ گردی کی حوصلہ افزائی کبھی اپنے ہی خلاف استعمال ہو جاتی ہے۔ یاد رکھیں! یہ عوام کسی کے سگے نہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں بھٹو کے نام پر خود سوزیاں کرنے والوں کی نسلوں نے بھٹو کے داماد کو نکال باہر کیا، اب انہوں نے بھٹو کا نواسہ تیار کر لیا ہے۔ نوجوان بلاول کے ہاتھ چومے جا رہے ہیں۔ اور ہاں ہماری یہ بات بھی نوٹ کر لیجئے گا کہ وہ وقت بھی دور نہیں جس روز بھٹو کا نواسہ اس پاکستان کا وزیراعظم ہو گا۔ یوتھ ہی یوتھ کی دشمن ثابت ہو گی کہ تحریک انصاف کی یوتھ بے لحاظ ہو چکی ہے جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی یوتھ ”بدلحاظ“ہے۔ یہ سب ان پرانے بڈھوں کی نشانیاں ہیں جنہوں نے اس ملک کی تکہ بوٹی نوچ نوچ کر کھائی اور اب حرام سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ نواز شریف کو گھر جانے دیں پھر دیکھئے گا اس ملک میں وہ پانی پت کا میدان سجے گا کہ والدین اپنی ہی اولادوں کو گالیاں دینے پر مجبور ہو جائیں گے۔ نسلوں میں جب نفرتیں بھر دی جائیں تو وہ اپنے پرائے سب سے بے لحاظ ہو جاتے ہیں۔ ماڈرن ازم اور آزادی کے نام پر فحاشی کا دوسرا دور شروع ہو گا جس کی شروعات ”پیر و مرشد پرویز مشرف“ کر گئے تھے۔ نواز شریف کو اتنے الٹی میٹم دئیے گئے مگر انہوں نے استعفیٰ نہ دیا حتیٰ کہ عید آ گئی اور شرمندگی مٹانے کے لئے دھرنے کو جلسوں کی شکل دے دی گئی۔ ورنہ عمران خان اس سے بھی بڑے جلسے کر چکے ہیں اور نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔ لوگ جلسوں میں انسانوں کی گنتی کرتے ہیں اور ہمیں جلسوں کی کامیابی میں ”گو عمران گو“ کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔ نواز شریف کے مشیروں نے آج انہیں جس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، وہ اسی مقام کے مستحق تھے مگر عمران خان کے مشیران انہیں جس مقام تک پہنچا دیں گے وہ اس سے بھی زیادہ کے مستحق ہیں۔ ان کے اپنے ہی ”ٹائیگرز“ انہیں اپنے ہی ہاتھوں سے آئینہ دکھائیں گے۔ شخصیت پرستی کے سحر سے نکل کر سوچیں گے تو سب سمجھ آجائے گا"۔