وزیر اعظم سانحہ مستونگ کے متاثرین کی خود دلجوئی کریں

 دیر آید درست آید۔بلاخر وفاقی حکومت نے سانحہ مستونگ کے شہدا کے لئے فی کس 15 لاکھ ،حکومت بلوچستان نے 5 لاکھ روپے کا اعلان کیا۔شدید زخمیوں کو 5لاکھ اور معمولی زخمیوں کو 2 لاکھ ملیں گے۔خدا کرے یہ امداد جلد از جلد وزیر اعظم ّخود متاثرین میں تقسیم کریں کیونکہ یہ ان کا اپنا صوبہ ہے۔ مسلکی دہشت گردوں نے ایک بار پھر بلوچستان کو آگ و خون میں نہلا کر جس وحشت اور بربریت کا ثبوت دیا ہے وہ ناقابل معافی ہے۔ افغانستان سے آنے والے ان وحشی درندوں نے جس طرح ایک پ±رامن مذہبی جلوس کو نشانہ بنایا ،اس کی تمام مکاتب فکر نے مذمت کی ہے۔ گزشتہ دنوں عید میلاد النبی کے موقع پر ملک بھر میں جشن آمد رسول کے ہزاروں جلوس نکالے گئے، چھوٹے بڑے شہروں، دیہات میں ریلیاں نکالی گئیں، لاکھوں عاشقانِ رسول نے اس میں شرکت کی، یہ جلوس ہمیشہ پرامن رہتے ہیں، سکیورٹی کا مسئلہ شاید ہی کہیں پیدا ہوتا ہے۔ 
مگر اس بار بلوچستان جیسے صوبے میں جہاں کے عوام پ±رامن رہتے ہیں دینی مجالس و محافل میں شرکت کرتے ہیں، وہاں تو عید میلاد کے جلوسوں کے حوالے سے کبھی بدمزدگی پیدا نہیں ہوئی۔ مستونگ جیسے پ±رامن شہر میں جہاں پہلے ہی ملک دشمن عناصر دہشت گردی کی وارداتیں کرتے رہے ہیں۔ 
اس قسم کی خوفناک واردات کا تو تصور ہی نہیں تھا۔ جلوس کے آغاز کے موقع پر جب سینکڑوں افراد جمع تھے، باقی آ رہے تھے خودکش بمبار نے نجانے کس جنت میں جانے کے وعدے پر بے گناہ 60 کے قریب مسلمان کلمہ گوو?ں کی جان لے لی ، خود تو واصل جہنم ہوا مگر اپنے پیچھے دکھ درد کی تادیر یاد رکھنے والےانمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ 
آفرین صد آفرین ہے بلوچستان کے ان سپوتوں پر، پاکستان کے اس فرزندوں پر ،جنہوں نے اپنے جوانوں کے لاشے ا±ٹھا کر بھی منہ سے ا±ف تک نہ نکالا ، ڈرامہ باز?ں کی طرح ناٹک نہیں رچایا، کہیں دھرنا نہیں دیا، ٹائر اور گاڑیاں نہیں جلائیں۔ سڑکیں بلاک کر کے عوام کو عذاب میں نہیں ڈالا ، ملک و قوم کیخلاف نعرے بازی نہیں کی، کوئی زبان درازی نہیں کی۔ صرف نعرہ تکبیر اور نعرہ رسالت لگاتے ہوئےانہوں نے نہایت صبروتحمل سے شہیدوں کے جنازے ا±ٹھائے اور انہیں آنسو?ں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کیا۔ بقول اقبال
میرے خاک وخوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا 
صلہ شہید کیا ہے تب تاب جاودانہ
لوگ تو حادثے میں مرنے والوں کی دیت طلب کرتے ہیں۔ مگر ان باہمت لوگوں نے ایک لفظ ادا نہیں کیا۔نہ ہی قانون ہاتھ میں لیا۔ درجنوں زخمی ابھی تک زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ 
کیا یہ حکومت بلوچستان اور حکومت پاکستان کی ذمہ داری نہیں تھی کہ ان بے گناہ شہیدوں اور زخمیوں کے گھر والوں کے لیے فوری معقول امداد کا اعلان کرتی۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہےتا کہ ان شہدا کے لواحقین کے ٹوٹے دلوں کو حوصلہ ملتا۔ اب حکومت نے یہ کام کیا مگر قدرے تاخیر سے۔
فی الحال آرمی چیف نے وفاقی وزیر داخلہ نے سانحہ کے زخمیوں کی عیادت کی ہے ، ان کے علاج معالجے کی ہدایت کی ہے۔ اسی مقدس دن دوسری طرف ڑوب میں سرحدی محافظوں نے اپنے پڑوسی ملک افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والے دہشت گردوں کے ایک گروپ کو روکنے کی کوشش کی اس شدید جھڑپ میں جہاں 3دہشت گرد واصل جہنم ہوئے وہاں 4جوان بھی شہید ہوئے۔ آرمی چیف نے ان کی بھی ہسپتال جا کر عیادت کی۔ 
اس موقع پر کوئٹہ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان ، گورنر بلوچستان، وفاقی وزیر داخلہ اور آرمی چیف سمیت اعلیٰ سول و فوجی افسران کو ان سانحات کے حوالے سے خصوصی بریفنگ دی گئی۔ جس میں سرحد پار سے آنے والے مسلح مذہبی اور علیحدگی پسند گروپوں کی آمد کے بارے میں بتایا گیا۔ ان تمام عناصر کو بھارت کی مالی و تربیتی حاصل ہے اور ان کے کیمپ افغانستان میں قائم ہیں، جہاں انہیں مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ان کو افغانستان میں پھلنے پھولنے کا موقعہ نہ ملے محفوظ پناہ گاہیں اور سرحد پار کرنے کی سہولت نہ ملے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ مکروہ عزائم رکھنے والے سرحد پار کر سکیں۔ انہیں القاعدہ اور داعش کے بچے کچھے گروپوں کی حمایت حاصل ہے جس کی وجہ سے مسلکی دہشت گردی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہ گروپ کھلم کھلا پاکستان مخالف عناصر کی بھی مالی امداد کرتے ہیں۔ پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے سخت پالیسیوں کی وجہ سے اب افغان حکومت نے ایسے گروپوں کی مدد حرام قرار دیدی ہے۔ کئی سو افراد کو گرفتار بھی کیا ہے ، ا±مید ہے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ 
بلوچستان کی تمام سیاسی و مذہب جماعتوں اور مخیر حضرات کو چاہیے کہ وہ خود آگے بڑھ کر سانحہ مستونگ کے متاثرین کی بھرپور مدد کریں۔ انسانیت اور بھائی چارے کو فروغ دیں۔ فی الحال بی این پی (مینگل) نے اپنے ورکروں اور عوام سے اپیل کی ہے کہ زخمیوں کو خون دیں، یہ ایک اچھی بات ہے باقی سب بھی اسی جذبے سے آگے بڑھیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...