بلوچستان اور ملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردوں کی کارروائیاں رکنے میں نہیں آتیں، مستونگ میں تو انہوں نے شہداءکی لاشوں کا ڈھیر لگادیا۔ کہیں نمازیوں سے بھری مسجد کو بموں سے اڑا دیا جاتا ہے۔ کہیں مغربی سرحد کے پار سے حملہ آور پاک فوج کو ٹارگٹ کرتے ہیں، دہشت گردی کی اس نئی لہر سے فوجی قیادت بخوبی آگاہ ہے اور اس نے نیشنل سیکورٹی کونسل کے ہراجلاس میں قوم کو باربار خبردار کیا ہے کہ اس وقت دہشت گردی ہمارا مسئلہ نمبر ایک ہے۔ پاک فوج دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے اس قدر مصروف ہے کہ پنجاب اور خیبرپختون خواہ کے صوبوں میں صوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد الیکشن ڈیوٹی کیلئے ضروری سیکورٹی مہیا کرنے سے قاصر رہی۔ ہمیں اپنی ترجیحات کا بخوبی اندازہ ہونا چاہئے۔
ملک اس وقت گوناگوں بحرانوں سے دوچار ہے۔ جن میں دہشت گردوں کا سونامی خوفناک شکل اختیار کررہا ہے۔ معاشی صورت حال بھی انتہائی دگرگوں ہے اور سیاسی استحکام بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ فوج اور عوام کے درمیان دوری پیدا کرنے کی منظم سازش سانحہ 9مئی میں سامنے آچکی ہے۔ اس پس منظرمیں کوئی تو پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کا خدشہ ظاہر کرتا ہے اور کوئی خدانخواستہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی پیشین گوئیاں کرتا ہے۔ نہ کسی کی زبان پکڑی جاسکتی ہے اور نہ کسی کے قلم پر کوئی کنٹرول ہے۔ جس کے جی میں جو آئے ، ہانکنا شروع کردیتا ہے۔
اس امر میں کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ پاک فوج نے عوام کے تعاون سے بیس سال سے جاری جنگ کا ایک دفعہ تو خاتمہ کردکھایا تھا۔ جس پر ساری دنیا میں پاک فوج کو داد وتحسین کا مستحق ٹھہرارہی تھی کہ جو کام امریکہ اور نیٹوافواج دس سال میں مل کر نہ کر سکیں‘ وہ پاک فوج نے تن تنہا کردکھایا۔ اس جنگ میں80 ہزار افراد نے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا جن میں پاک فوج کے افسر و جوان بھی شامل تھے۔ لیکن کیا کیا جائے ، کہ سرپیٹنے کو جی چاہتا ہے کہ عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں دہشت گردوں کیلئے افغان بارڈر کھول دیا ، اس طرح وہ عناصر جو ضرب ِ عضب کی تاب نہ لاکرملک چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے ، وہ پاکستان کے گلی کوچوں میں واپس آگئے۔ خاص طور پر اس نے بلوچستان اور قبائلی علاقوں سوات وغیرہ کو اپنے محفوظ ٹھکانوں میں بدل لیا۔
بلوچستان کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ صوبہ اور اسکے عوام احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ مگر آج حساب کتاب لگا یا جائے تو بلوچستان پورے پاکستان پر حاوی ہے۔ نگران وزیراعظم کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ نگران وفاقی وزیرداخلہ بھی اسی صوبے سے تعلق رکھتے ہیں ، پاکستان کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کا تعلق بھی کوئٹہ سے ہے۔ اور ملک کا دوسرا بڑا آئینی عہدہ بھی ایک بلوچ سنجرانی صاحب کے حصے میں آیا ہے اور صدر مملکت کی غیرحاضری کی شکل میں ملک کی صدارت سنبھال سکتے ہیں۔ اس فہرست پر ایک سرسری نظر ڈالنے کے بعد اب کسی کو بلوچستان کی محرومیوں کی شکایت نہیں ہونی چاہئے۔ لہٰذا ان حالات میں نگران وزیراعظم اور وزیرداخلہ کا اب فرض بنتا ہے کہ وہ پورے ملک کے ساتھ ساتھ اپنے صوبے کے حالات پر بھی گہری نظر رکھیں اور دہشت گردوں کو دوبارہ سراٹھانے کا موقع نہ دیں۔
پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی بڑھتی ہوئی وارداتوں ، کارروائیوں کے پس پردہ بھارت کا ہاتھ نمایاں نظر آتا ہے ، بھارتی فوج کا ایک حاضر سروس افسر کلبوشن یادیو بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے رنگے ہاتھو ں پکڑا گیا۔ خیا ل یہ تھا کہ طالبان کی حکومت آنے کے بعد افغانستان سے بھارت کا اثرو نفوذ مٹ جائے گا ، مگر درجنوں کے حساب سے اس کے قونصل خانے اب بھی پاک افغان سرحدی علاقوں میں سرگرم عمل ہیں۔ طالبان کی سوچ کا ا بھی اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وہ آئینی طور پر اس امر کے پابند ہیں کہ افغان سرزمین کو پاکستان یا کسی ہمسایہ ملک کیخلاف دہشت گردی کے طور پر استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ لیکن صد افسوس انہوں نے کھلا اعلان کردیا کہ دہشت گرد پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے ، پاکستان خود ان سے نمٹے۔ اس طرح پاکستان کی پیٹھ ننگی رہ گئی ہے او ر دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا ہے۔ اِدھر،عمران خان کی مہربانیوں سے دہشت گرد ہمارے کوچہ و بازار میں گھس چکے ہیں۔ وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں ، خون کی ندیاں بہادیتے ہیں۔
پاکستانی فوج بہرحال یکسو ہے اوروہ دہشت گردی کے جن کوبیخ و بن سے اکھاڑنے کیلئے پر عزم ہے۔ بدقسمتی سے اپنے دفاعی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان کئی اندرونی اور بیرونی طاقتوں کا ٹارگٹ اورآماجگاہ بنا ہوا ہے۔ چین سے پاکستان کی قربت کسی کوایک آنکھ نہیں بھاتی۔ سی پیک کا منصوبہ اور اس میں پاکستان کی بھرپور شرکت پورے امریکی بلاک کے لئے ناپسندیدہ عمل ہے۔ سی پیک راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے ایک دنیا پاکستان کیلئے سیکورٹی کے خطرات پیدا کررہی ہے۔ جبکہ پاکستان جانتا ہے کہ سی پیک ایک گیم چینجر منصوبہ ہے اور اس کی کامیابی ہمارے روشن مستقبل کی یقینی ضمانت ہے۔ ہماری مسلح افواج کو ایک کٹھن اور دشوار مرحلے سے گذرنا پڑرہا ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاک فوج کا مورال بلند ہے۔ اسے محب وطن پاکستانی عوام کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔ یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہئے کہ سری لنکا میں چالیس سال سے جاری دہشت گردی کا خاتمہ پاک فوج کے تعاون سے ممکن ہوا۔ اگرپاکستان ایک دور دراز ملک میں آخری دہشت گرد کا سر بھی کچل چکا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے وطن عزیز پر کوئی آنچ بھی آنے دیں۔ مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ پاک فوج اور عوام شانہ بشانہ دکھائی دیں اور وقتی مشکلات پر قابوپانے کیلئے ضربِ عضب کی طرح ایک اور آ ہنی آپریشن عزم و ولولے سے جاری وساری رکھنا چاہئے۔
٭....٭....٭
دہشت گردی کی نئی لہر
Oct 03, 2023