چین کے 100 سال اور میرا اضمحلال

میں ان دنوں عجیب الجھن کا شکار ہوں۔ لکھنے کے معاملے میں میرا یہ معمول رہا ہے کہ اس کیلئے میرا روزانہ کا ایک شیڈول ہوتا ہے اور لکھنے کی متقاضی جو چیز میرے شیڈول کا حصہ بن جاتی ہے‘ وہ میں بہرصورت کر گزرتا رہا ہوں۔ ان میں کالم یا اخبار کیلئے اداریہ لکھنے کا تو میرا شیڈول ویسے ہی متعینہ ہے۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ متعینہ شیڈول کے علاوہ بھی کچھ لکھنے کا تقاضا ہو جاتا یا ذہن میں کوئی خیال در آتا تو خامہ فرسائی کا یہ مرحلہ شیڈول سے ہٹ کر بھی طے کرلیتا مگر اب شیڈول میں شامل کوئی چیز بھی قلم زد ہونے سے رہ جائے تو پھر اسکے ضبطِ تحریر میں آنے کی مشکل ہی سے نوبت آپاتی ہے۔ بس غالب کے اس شعر والی کیفیت بن گئی ہے کہ:
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
اب عناصر میں اعتدال کہاں 
میری یہی کیفیت ان دنوں کئی عزیز دوستوں کی میرے ساتھ ناراضگی کا باعث بن رہی ہے۔ اگر میرا کوئی قلمکار دوست اپنی شاعری یا نثر کی آنیوالی کتاب کیلئے مجھ سے فلیپ لکھوانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو یہ یقیناً میرے لئے اعزاز کی بات ہوتی ہے اور یہ خواہش کبھی اپنی شوریدہ سری کے باعث پوری نہ کر پاﺅں تو خود مجھے بھی شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔ 
میں ان دنوں ایسی ہی شرمندگی کا بار اپنے عزیز دوستوں اور جنوبی پنجاب کے نامور صحافیوں محترم جبار مفتی اور محترم سعید احمد کی خواہشات کے کلی احترام کے باوجود انکی خواہشات پوری نہ کر پانے کی صورت میں اٹھائے پھرتا ہوں۔ ان احباب نے اپنی اپنی حیات جادواں میں شامل چاشنی‘ کامرانیوں اور کٹھنائیوں کو سوانح عمری کی شکل میں قلمبند کیا اور مجھے فلیپ لکنے کیلئے متعلقہ مواد بھی بھجوا دیا۔ میں نے ان دونوں کتابوں کا فلیپ لکھنا اپنے شیڈول میں شامل بھی کرلیا مگر جن دنوں کے شیڈول میں یہ معاملہ رکھا گیا تھا‘ ضروری دفتری مصروفیات کے باعث ان دنوں کا شیڈول پورا نہ کر پایا اور پھر تساہل کا سلسلہ دراز ہو گیا۔ محترم جبار مفتی اور سعید احمد صاحب کا میری اس وعدہ خلافی پر ناراض ہونا بجا ہے اور مجھے خود بھی شرمندگی کا احساس کچوکے مارتا رہتا ہے۔ اب تو وہ اپنی اپنی شائع شدہ کتب مرحمت فرمائیں گے تو ان پر اپنے کالم میں تبصرہ کرکے کفارہ ادا کر پاﺅں گا۔ 
ایسی ہی شرمندگی کا بوجھ میرے سر پر نوائے وقت میں مسلسل آٹھ سال تک کالم ”نوربصیرت“ لکھنے والے عزیز دوست رضا الدین صدیقی صاحب کے حوالے سے بھی موجود ہے۔ ان کا کچھ عرصہ قبل امریکہ میں انتقال ہوا تو تعزیتی کالم لکھنے کا فریضہ ادا کر دیا مگر جب انکے عزیزوں نے انکے لکھے کالم کتاب کے قالب میں ڈھالنے کا عزم باندھا اور مجھے اس کتاب کا فلیپ لکھنے کا کہا تو میں ان احباب کی یہ خواہش بھی پوری نہ کر پایا۔ بس:
رہِ وفا میں قدم لڑکھڑا ہی جاتے ہیں
کسی مقام سے پہلے‘ کسی مقام کے بعد
محترم قیوم نظامی جہاندیدہ شخصیت اور جید سیاسی پیشوا ہی نہیں‘ نوائے وقت کے مقبول کالم نگار بھی ہیں۔ انہوں نے علم و عرفان پبلشرز کے ذریعے اپنی نئی کتاب ”چین کے 100 سال“ اشاعت کے مراحل کی تکمیل کے ساتھ ہی مجھے بذریعہ ڈاک بھجوا دی مگر کتاب موصول ہونے کے اگلے ہی روز میرے ایک بے باک دوست مجھ سے یہ کتاب چھین کر لے گئے اور ستم یہ ہوا کہ یہ بات میرے ذہن سے ہی محو ہو گئی کہ قیوم نظامی صاحب کی کتاب مجھے موصول ہو چکی ہے جو مجھ سے بذریعہ کالم میرے خیالات کے اظہار کی متقاضی ہے۔ کچھ عرصہ بعد قیوم نظامی صاحب نے شکوہ کیا کہ آپ نے ابھی تک اس کتاب پر اپنی تحریر کی رسید نہیں دی۔ میں نے جوابی شکوہ کیا کہ مجھے تو آپ کی کتاب موصول ہی نہیں ہوئی۔ اس پر قیوم نظامی صاحب نے مجھے بذریعہ ڈاک کتاب بھجوانے کی رسید وٹس ایپ کردی تو ماﺅف ذہن میں یہ کوندا لپکا کہ یہ کتاب تو فلاں دوست مجھ سے اچک کر لے گئے تھے چنانچہ میں نے قیوم نظامی صاحب سے معذرت کی اور اسی روز کتاب اپنے دوست سے واپس منگوالی۔ اس پر اپنے فہم کے مطابق تبصرہ لکھنا اپنے شیڈول میں شامل بھی کرلیا مگر مقررہ دن تساہل آڑے آیا اور سرے سے کالم ہی نہ لکھ پایا۔ اگلے کالم کا مقررہ دن آیا تو کچھ دوسرے اہم موضوعات نے کالم لکھنے کیلئے قلم کا رخ اور نگاہ کا زاویہ تبدیل کر دیا۔ چنانچہ اس شرمندگی کا بار بھی میرے سر پر سوار ہو گیا۔ 
آج کے اخبار کی ہیڈ لائن پر نظر پڑی جو چین کے 74ویں قومی دن کے موقع پر ہماری سول‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں کے مبارکبادی پیغامات پر مبنی تھی تو قیوم نظامی صاحب کی کتاب کا ٹائٹل ”چین کے 100 سال‘ ماوزے تنگ سے شی جن پنگ تک“ نگاہوں کے آگے گھومنا لگا اور پھر 30 سال قبل 1993ءمیں چین میں گزرے ایک ہفتے کے قیام کی یادیں بھی قطار اندر قطار میرے ذہن میں جلوہ گر ہونے لگیں۔ یہ قیام اس وقت کے سپیکر پنجاب اسمبلی میاں منظور احمد وٹو کی معیت میں ممکن ہوا تھا جو پنجاب اسمبلی کا ایک پارلیمانی وفد چین کے صوبے جیانگ سو لے کر گئے اور پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی کے صدر کی حیثیت سے مجھے بھی اس وفد کا حصہ بنالیا۔ میں نے اس دورے کی یادداشتیں قلمبند کرکے اپنی کتاب ”آگے موڑ جدائی کا تھا“ کے اوراق پر منتقل کر دیں جو سنگ میل پبلی کیشنز کے نیاز احمد صاحب نے تزک و احتشام کے ساتھ شائع کی۔ قیوم نظامی صاحب نے بھی یہی کارنامہ اپنی نئی کتاب ”چین کے سو سال“ کے ذریعے سرانجام دیا جس کے مجموعی 45 ابواب میں چین کی پڑمردگی سے ترقی تک کے کٹھنائیوں اور رعنائیوں والے سفر کی جزیات تک سے آگاہی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ قیوم نظامی صاحب نے مئی 1990ءمیں بیگم نصرت بھٹو کی قیادت میں چین اور شمالی کوریا کا دورہ کیا تھا چنانچہ انہیں ان دونوں ایشیائی ممالک کی عظیم انسانی ترقی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے اور جائزہ لینے کا موقع ملا اور جب انہوں نے قلم اٹھایا تو چین کی کایا کلپ کرنے والی اسکی قومی جماعت کمیونسٹ پارٹی کی کٹھن جدوجہد‘ اسکی کامرانیوں بشمول عوامی جمہوریہ چین کے عالمی نقشے پر نمودار ہونے کے سارے طے کردہ مراحل‘ اسکے نظام حکومت اور ماﺅزے تنگ سے اب تک کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادتوں کی ملک اور عوام کو خوشحالی و استحکام کی منزل کی جانب گامزن کرنے کی خداداد صلاحیتوں کا احاطہ کرتے وقت ہر موضوع کے ساتھ پورا پورا انصاف کردیا۔ یہ کتاب دراصل کمیونسٹ پارٹی کے 100 سالہ سفر کا ہی احاطہ کرتی ہے۔ میں چونکہ چین کے زرعی اور صنعتی انقلاب کا خود بھی شاہد ہوں اور اس کیلئے کمیونسٹ پارٹی کی قیادتوں کی بے لوث خدمات و کارکردگی کا قائل بھی ہوں‘ اس لئے مجھے قیوم نظامی صاحب کے ان الفاظ سے مکمل اتفاق ہے کہ چین کے منفرد معاشی اور سیاسی نظام کی بدولت چین کے امیر افراد دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہو گئے اور کروڑوں غریب عوام غربت کی لکیر سے باہر نکل آئے۔ چین کی ترقی کا سہرا کمیونسٹ پارٹی کے سر ہے جس نے میرٹ‘ شفافیت‘ یکساں احتساب اور آئین و قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصولوں پر عمل کرکے چین کی ترقی کی راہ ہموار کی۔ قیوم نظامی صاحب کی قائم کردہ یہ رائے بھی دنیا کی ریاستوں اور مملکتوں کے مابین پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کی اہمیت کو اجاگر کر تی ہے کہ ”چین کے لیڈروں نے عالمی تنازعات میں الجھنے کے بجائے اندرونی معاشی ترقی و استحکام پر توجہ دی اور دوسری قوموں پر تسلط قائم کرنے کے بجائے باہمی اشتراکی ترقی کو خارجہ پالیسی کا مرکزی اصول بنایا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں چین کے وقار میں اضافہ ہوا۔“ 
میں نے چین میں ترقی کی جو معراج 30 سال قبل اسکے نسبتاً پسماندہ صوبے جیانگ سو اور اسکے زرعی دیہی شہر ”اوشی“ میں دیکھی تھی۔ آج 30 سال بعد تو چین کی بالخصوص ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ترقی کسی عمومی تصور سے بھی باہر ہوگی۔ بے شک کسی ملک کی بے لوث قیادتیں ہی ایسی ترقی کیلئے اپنے ملک کو اقوام عالم میں مثال بنایا کرتی ہیں۔ ماﺅزے تنگ سے شی جن پنگ تک چین کی کسی قیادت کے دامن پر اپنے ملک‘ نظریے اور عوام کے ساتھ بے وفائی کا کوئی ہلکا سا چھینٹا بھی نظر نہیں آتا۔ ہم چین کے ساتھ بے لوث دوستی کے داعی ہیں جو ہمیں شہد سے میٹھی‘ سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند نظر آتی ہے مگر قائداعظم کے بعد ہماری قیادتوں میں ملک و قوم کیلئے کچھ کر گزرنے کے بے لوث جذبے کی کوئی رمق ہی پیدا نہیں ہو پائی۔ ہم آج بھی اپنے نظریے اور ملک کی تشکیل کے مقاصد کے بارے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ نئے اور پرانے پاکستان کے تصور میں الجھے ہوئے اور اپنے گلے میں آئی ایم ایف کی غلامی کا پٹہ ڈال کر ”یوسفِ بے کارواں“ ہوئے پھر رہے ہیں۔ ”کاں ڈوڈ“ والی کیفیت کو اوڑھ کر ہم دنیا میں سر اٹھا کر اپنے تشخص کے ساتھ چلنے کے قابل ہی نہیں بن پا رہے۔ چین اپنے 74 ویں قومی دن پر ہمیں قومی سرخروئی والا کیا پیغام دے رہا ہے‘ اپنے گریبان کی جانب سر نیہوڑا کر سوچیئے‘ شاید کوئی مقامِ عبرت ہی ہمارے ہاتھ آجائے۔

ای پیپر دی نیشن