منگل ‘ 16 ربیع الاول 1445ھ ‘ 3 اکتوبر 2023ئ

Oct 03, 2023

پاکستان میں امیر طبقے پر زیادہ ٹیکس ہونا چاہیے۔ آئی ایم ایف 
 یہ بات پہلے بھی آئی ایم ایف والے کئی بار کہہ چکے ہیں مگر سنتا کون ہے۔ غریب پاکستانی تو عرصہ دراز سے یہی مطالبہ کرتے آ رہے ہیں مگر چونکہ ان پر حکومت کرنے والے خود اسی امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ اس مطالبے پر کان نہیں دھرتے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہی غریب لوگ انہی ظالموں کو ووٹ دے کر تخت پر بٹھاتے ہیں جو ان غربا کا دھڑن تختہ کرتے ہیں۔ قومی ہو یا صوبائی‘ اسمبلیوں میں انہی امرا کے نمائندے موجود ہیں۔ بیوروکریسی پر بھی یہی چھائے ہوئے ہیں۔ صنعت و تجارت پر انہی کی مضبوط گرفت ہے۔ یہی اربوں کے قرضے لیتے ہیں جو واپس نہیں کرتے۔ ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹنگ میں یہی آگے آگے ہوتے ہیں۔ ہاں اگر کسی میدان میں یہ غریبوں سے مات کھاتے ہیں تو وہ ہے ایمانداری سے ٹیکس ادا کرنے میں۔ غریب عوام سے حکومت بزور طاقت معمولی سے معمولی ٹیکس بھی وصول کرنے میں تاخیر نہیں کرتی جبکہ ان طاقتور طبقات سے بھاری سے بھاری ٹیکس ہو یا قرضہ وصول کرتے ہوئے حکومتوں کو ناگوار گزرتا ہے اور وہ یہ کام نہیں کر سکتیں۔ حکمرانوں کی انہی نااہلی کو دیکھ کر ہمارے اَن داتا آئی ایم ایف نے کئی بار یہ مطالبہ کیا ہے کہ حکومت امیروں پر زیادہ ٹیکس لگائے۔ سچ بھی یہی ہے، انصاف بھی یہی ہے۔ کیوں کہ یہ لوگ مالی استطاعت رکھتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ٹیکس بھی ادا کر سکتے ہیں۔ مگر کیا کریں انہیں عادت ہو گئی ہے، معمولی سا ٹیکس ادا کرنے کی بجائے اس سے بھی بچنے کے لیے غیر قانونی راستے تلاش کرنے کی۔ وہ زیادہ ٹیکس کیوں دیں۔ حکومت کوشش کر لے‘ یہ لوگ تجارتی کاروباری، صنعتی مراکز بند کر کے ہڑتال کا ایسا ڈرامہ رچائیں گے کہ حکمرانوں کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ انہیں کونسا فاقوں کا ڈر ہے۔ اصل مسئلہ تو وہ غریب ہیں جو ان کے پاس کام کرتے ہیں۔ وہ بے روزگار ہوئے تو ان کے گھر فاقے ہوں گے۔ اس لیے حکومت نچلے طبقات کو بھرپور ریلیف دے اور امرا پر بھرپور ٹیکس لگائے۔ فربہ گائے زیادہ دودھ دیتی ہے۔ اس لیے اس پر توجہ مرکوز کی جائے۔ یہی آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے۔ 
٭٭٭٭٭
مریم نواز نے انتخابی ٹکٹ نواز شریف کے استقبال سے مشروط کر دیا 
یہ ہوتی ہے سیاست۔ ایسا ہوتا ہے تیسری دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک میں۔ جہاں میرٹ کوئی شہ نہیں ہوتی۔ یہاں وفاداری بشرط استواری کا فارمولا زندگی کے ہر شعبہ میں نظر آتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں مسلم لیگ (نون) کی رہنما ایک پڑھی لکھی خاتون ہونے کے باوجود ملک کے مستقبل کی باگ ڈور ایسے افراد کے ہاتھ تھمانا چاہتی ہیں جو ان کے پارٹی کے سربراہ کے استقبال کیلئے زیادہ سے زیادہ گاڑیاں لائیں گے۔ لوگوں کا بندوبست کریں گے۔ خواہ وہ شخص اہل ہے یا نہیں اسے صرف اس خدمت کے صلے میں آئندہ الیکشن کیلئے ٹکٹ جاری کیا جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت اس سے ٹکٹ کا معاوضہ بھی خطیر فنڈ کی شکل میں لیا جا سکتا ہے۔ ا ب ان امید وارں نے لوگوں کو لبھانے انہیں زیادہ سے زیادہ استقبالی جلوسوں میں شریک کرنے کیلئے ان میں موٹر سائکلیں تقسیم کرنے کے اعلانات بھی کئے ہیں۔ اس بات سے ہماری سیاسی شعور کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پھر ہم یہ رونا روتے ہیں کہ ہمارے ہاں جمہوری روایات مضبوط نہیں جمہوریت جڑ نہیں پکڑ سکی۔ جب ہمارے سیاستدان خود ہی جمہوریت کی جڑیں کاٹنے پر کمربستہ ہوں تو جمہوریت کو کون بچا سکتا ہے۔ ہر جماعت کے ساتھ یہی المیہ ہے اور ہر جماعت ایسی ہی پالیسی لے کر چل رہی ہے۔ کوئی مرشد کے نام پر کوئی شہیدوں کے تو کوئی امیر کے نام پر زور دیتا ہے۔ سیاست میں حصہ لینے والی ہر جماعت نے اپنے اپنے بت بنائے ہیں جن کو کیش کراتے ہیں اور نعرہ لگاتے ہیں۔ بقول اقبال۔۔۔
ہزار بت ہیں جماعت کی آستینوں میں 
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ 
اور بے وقوف ووٹران کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔ اب گزشتہ روز شاہدرہ کے ورکر کنونشن میں شاید مریم نواز نے لوگوں کی شرکت دیکھ کر یہ بات کی ہو گی۔ جس کا زیادہ دکھ وہاں کے ایم این اے اور ایم پی اے کو ہو ا ہو گا جو سڑک پر بھرپور جلسہ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے وہ بھلا بڑا استقبالیہ جلوس کہاں سے لے کر آئیں گے جبکہ عوام ان سے بیزار اور اکتائے سے لگ رہے ہیں جو لوگ جلوس کے لیے لاکھوں خرچہ کر سکتے ہیں مگر علاقے کے غریبوں کی پھوٹی کوڑی کی مدد نہیں کرتے۔ 
٭٭٭٭٭
سعودی ولی عہد کا مرسیڈیز نے تحفہ دے کر بچے کی خواہش پوری کر دی 
سچ کہتے ہیں بادشاہ یونہی نہیں بنتے۔ کوئی نہ کوئی خاص بات یا ادا ان میں ایسی ہوتی ہے کہ انہیں اس مرتبے کے لیے چ±ن لیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں قدیم ہو یا جدید بادشاہوں کے سخی لوگوں کے قصے آج تک سنائے جاتے ہیں یاد رکھے جاتے ہیں۔ ایسے ہی واقعات میں ایک واقعہ گزشتہ روز سعودی عرب میں پیش آیا جب وہاں کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک ایسے بچے کی وہ خواہش پوری کر دی جس کا شاید اس کے گھر والے تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہوا یوں کہ یہ بچہ بھی شاہ محمد بن سلمان کے استقبالیہ جلوس میں کھڑا تھا۔ جسے انہوں نے دیکھ کر پاس بلا لیا اور پیار کیا اس سے اس کی کوئی خواہش پوچھی تو بچے نے نہایت معصومیت سے ان کی مہنگی ترین مرسیڈیز گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ شاہ نے پوچھا یہ چاہیے تو بچے نے اقرار میں سر ہلایا جس پر ولی عہد نے اس بچے کے گھر کا پتہ لیا اور اگلے ہی دن ایک نئی لش پش کرتی چمچماتی ہوئی مرسیڈیز کار اس بچے کے گھر پہنچا دی گئی۔ شکر ہے سعودی عرب میں تیل سستا ہے ورنہ ہمارے ہاں اگر ایسی مہنگی گاڑی کا تحفہ آیا ہوتا جو پٹرول بھی زیادہ پھونکتی ہے تو گھر والے پٹرول کے ماہانہ خرچے کا حساب لگا کر ہی بے ہوش ہو جاتے۔ ہاتھی پالنا سب کے بس کی بات نہیں۔ اب کوئی اس بچے کی خوش کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتا۔ عرب حکمرانوں کی دریا دلی اور عوام سے محبت کی بدولت وہاں شاہی نظام حکومت کے باوجود وہاں کی رعایا پسند کرتی ہے۔ ان کا احترام کرتی ہے ان سے محبت بھی کرتی ہے۔ اسی عوام دوست رویوں کی وجہ سے آج عرب ریاستیں جو کل تک پسماندہ ممالک میں شامل تھیں آج جدید ترقی یافتہ ممالک سے مقابل کر رہی ہیں۔ ان کاشمار دنیا کے متمول اور خوبصورت ہی نہیں ہر قسم کی سہولتوں سے آراستہ ممالک میں ہوتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
طوفانی بارشوں سے نیویارک ڈوب گیا۔ ایمرجنسی نافذ 
امریکہ کو بڑا گھمنڈ ہے اپنی طاقت پر۔ وہ خود کو دنیا کی سپرطاقت طاقت سمجھتا ہے۔ اس نے اپنے مقابلے آنے والی دوسری طاقت کو نہایت چالاکی سے مکاری سے مختلف معاملات میں الجھا کر دھوبی پٹڑا مارا کہ ان کی ہڈی پسلی ایک کر دی اور وہ طاقت آج بھی مرہم پٹی کراتی پھر رہی ہے۔ جونہی اسے کچھ افاقہ ہوتا ہے اسے امریکہ نئی چوٹ پہنچاتا ہے۔ باقی جو چار پانچ نام نہاد درشنی پہلوان دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں وہ بھی صاحب بہادر امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتی اس کا دم بھرتی پھرتی ہیں۔ کیا مجال ہے جو عالمی سطح پر اسکے خلاف بولیں سب گونگے بنے رہتے ہیں۔ فوجی، سیاسی اور اثر و رسوخ کے میدان میں امریکہ خود کو تنہا ہیرو سمجھتا ہے۔ ٹیکنالوجی اور سائنسی شعبوں میں ترقی کی بدولت اس کا یہ دعویٰ درست ہی سہی مگر اب بھی ایک طاقت ایسی ہے جو اب بھی ازل سے ابد تک س±پر طاقت نمبر ون ہے اور رہے گی۔ وہ ہے خدائی طاقت۔ خداوند عالم کی طاقت کے سامنے نہ کوئی ٹھہرا ہے نہ ٹھہر سکے گا پہلے بھی بڑی بڑی طاقتور ریاستوں کا دور آیا انہیں عروج ملا آج ان کے آثار نشان عبرت بنے بکھرے ہیں۔ گزشتہ روز امریکی ریاست نیویارک میں جو حقیقت میں امریکہ کا چہرہ ہے اس کا تعارف ہے ہونے والی بارش نے جس طرح امریکی غرور کو خاک میں ملایا وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ قدرت کی طرف سے بارش کی شکل میں پڑنے والا وہ تھپڑ ہے جو بتا رہا ہے کہ 
سیل رواں کے ایک تھپیڑے کی دیر تھی 
تاج و کلاہ و تخت کے سب سلسلے گئے 
تمام تر ترقی سہولتوں اور وسائل کے باوجود امریکی نظام درہم برہم ہو گیا۔ امریکی طاقت کچھ بھی نہ کر سکی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بارش زلزلہ ، طوفان ، آگ یہ سب کچھ اوپر والی عظیم تر آسمانی طاقت کے ایک اشارے پر بڑے بڑوں کا غرور توڑ دیتی ہیں اور ہر طرف ایک ہی اعلان ہوتا ہے کہ حکومت اور طاقت صرف اللہ کی ہے۔ 
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں