خالص کِھیر اور دکھلاوے کا عشق

کالم:لفظوں کا پیرہن 

تحریر:غلام شبیر عاصم 

خالص کِھیر اور دکھلاوے کا عشق

عید میلادالنبی کی پہاڑیوں کو دیکھنے اور موج مستی کے لئے آئے ہوئے جواں سالہ شائقین شاید فرطِ شوق میں یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ آج"الحیاء مِن الایمان"کا پیغام لے کر آنے والے نبی مکرمﷺ کی آمد کا جشن ہے۔کچھ خیال کریں،پاک آقا کی طرف رجوع کریں۔مگر نئے جواں خون میں قدیم زمانے والا عقیدت و احترام اور تقدس اب کہاں،اظہارِ عشقِ رسولﷺ بھی اب فیشن اور اسلام مخالف جدیدیت کی نذر ہوگیا ہے۔میلاد النبی کی پہاڑیاں دیکھنے والے نوجوان لڑکے لڑکیاں شمالی علاقہ جات کی پہاڑیوں کی سیر و تفریح ہی کے مناظر کا تصور پیش کر رہے ہوتے ہیں۔سیلفیاں،ویڈیوز، آوازیں کسنا،دھکم پیل،اٹھکیلیاں کرنا اور ان کے آپس میں اختلاط صاف نظر آ رہا ہوتا ہے۔اس بار بندہ ناچیز بلکہ"بندہ بڑی چیز" بھی یار لوگوں کے ساتھ دلہن کی طرح بناو سنگار میں سجے ہوئے گلیاں بازار دیکھنے کے لئے پہنچ گیا،وہاں ایمان شکن مناظر دیکھ کر پریشان ہوگیا اور دل کی روحانی کیفیت اور رقت بدن سے روح کی طرح نکل سی گئی۔اضطراب کی دلدل نے مجھے اپنے اندر اتار لیا اور میں گویا دولتِ قرار سے محروم ہوکے رہ گیا۔ انہیں لمحات میں تبرک و نیاز کے نمکین چاولوں کے چند لقمے لئے اور چاولوں نے اپنا مزا تو دیا مگر صبح کے وقت مرکزی جلوس کی آمد پر جوشہر کی مشہور"خالص اور شرطیہ کھیر" کھائی تھی اس کی لذت کے کیا کہنے۔اس خالص کھوئے والی کھیر میں پستہ،مغزبادام،سبز الائچی اور کشمش نے جو ذائقہ دیا وہ دیر تک میرے اندر برقرار رہا۔جب بھی ڈکار آتی مزا آجاتا۔اب نمکین چاولوں کی ڈکاروں میں کہیں کھوئے ہوئے "کھوئے"والی شرطیہ کھیر کی ڈکاروں کی یاد شدت سے آرہی تھی۔میری حسِ ذائقہ اندر ہی اندر بِلک رہی تھی۔صبح والا طویل المعیاد ذائقہ دوبارہ چکھنے کے لئے صاحبے کھیر والے کی شرطیہ خالص کھیر کھانا پڑی تاکہ میٹھی اور خوشبودار ڈکاریں آئیں اور میں میٹھے میٹھے لطف میں ڈوبا رہوں۔قانونِ فطرت بلکہ"قانونِ معدہ"ہےجو کھائیں گے،اسی شے کے ذائقہ کی ڈکاریں آئیں گی۔شرطیہ خالص میٹھی کھیر کے"سواد"نے سجے سنورے بازار میں ڈیگ پر بلند آواز میں چلتی ہوئی قوالی نے میرے اندر سے آتی ہوئی کھیر کی خوشبو اور"سرکار کی خوشبو"پر سوچ بچار میں مجھے محو کردیا۔قوالی کے بول تھے۔
جدوں پڑھاں درود میں ساہواں چوں
سرکار دی خوشبو آوندی اے 
میں سجے سنورے،چمکتے دمکتے اور لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے بازار کی رونق سے بے نیاز سا ہوکرسوچ کے سمندر میں غوطہ زن ہوگیا۔ذہن کی سوئی اس بات پر اڑ گئی کہ نمکین چاول کھائے تو ڈکاریں نمکین آرہی تھیں،میٹھی خوشبودار کھیر کھائی تو ڈکاریں کھیر والی آرہی تھیں۔نتیجہ یہ کہ جو شے اندر اتاری جائے گی اندر سےاسی کی خوشبو آئے گی۔اگر میں بجائے کھیر کھانے کے کھیر کو چہرے پر ہی م?ل لیتا تو پھرچہرہ تو کھیر کی نمائش کرتا مگر اندر سے میٹھی میٹھی خوشبو والی سانسیں آنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔قوال طبلہ،ہارمونیم اور رِدھم کے ساتھ بار بار دہرا رہا تھا کہ"جدوں پڑھاں درود میں،ساہواں چوں سرکار دی خوشبو آوندی اے"اس کے مفہوم کا تال میل خوشبودار کھیر کے کھائے جانے یا فقط چہرے پر ہی مساج کر لینے سے بہت تعلق رکھتا ہے۔اگر تو کسی نے واقعی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی عشق کو اپنے اندر بسا لیا ہے تو پھر واقعی سانسوں سے سرکار کی خوشبو بھی آئے گی اور وہ خوشبو"دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے گی"اور پورے جہان کو معطر کردے گی۔اگر محبوبِ خدا سے عشق سچا ہے تو پھر حضرت علامہ اقبال کا شعر ببانگ دہل گواہی دیتا ہے کہ
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں 
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

یعنی عشق اگر فقط دکھلاوے تک ہے تو پھر شرطیہ خالص کھوئے والی کھیر کو چہرے پر ملنے اور اوپر اوپر سے لبیک کہنے سے کیا حاصل اور یہ عشق کا زبانی دعویٰ خالص کھیر سے بھی گیا گزرا خیال کیا جائے گا۔
کیونکہ ذاتِ نبیﷺ کی رضا اور بیم و رجا کو اپنے اندر جمع کرنے کے لئے اپنی ذات کی نفی کرنا پڑتی ہے۔اپنی ذات کی نفی کرکے اپنے اندر عشقِ رسولﷺکو جمع نہیں کیا تو پھر یہ عشق دکھلاوے کا ہوگا۔اگر سانسوں سے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کی خوشبو آنےکی خواہش ہے تو پھر فنا فی الذات کے مقام پر فائز ہوکر ہی فیض پایا جاسکتا ہے۔ورنہ دل کو تسلی ہی دے سکتے ہیں،اپنے تئیں ایک اطمینان قائم کرسکتے ہیں کہ ہم سچے عاشقان رسول? ہیں۔وہ جو سانسوں سے سرکار کی خوشبو آنے والی بات ہے وہ بڑے زہد و تقویٰ اور خود کو کڑے امتحان کے بیلنے سے گزار کر چورا کردینے سے مقام حاصل ہوتا ہے۔نفسِ امارہ کی خواہشات کے جنگل نما اگے ہوئے کماد کو کاٹ کر ایک ایک گنے سے خواہش پرستی کو نچوڑ باہر کرنے کے بعد تب کہیں سانسوں سے سرکار کی خوشبو آنے کا عمل تشکیل پاسکے گا۔

ای پیپر دی نیشن