’’سیاست‘‘ میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ یہ میں نہیں کہہ رہا‘ بلکہ برطانوی سیاست میں ’’جمہوریت‘‘ کو ماں کا درجہ دینے والے ان سیاست دانوں کا یہ قول ہے جو ملکی عزت و وقار کے تحفظ اور قومی مسائل کو عوام کے دروازے پر حل کرنے کے اصولوں پر کاربند ہیں۔
سیاست واقعی ایک الجھا اور بے ترتیب ایسا دقیق موضوع ہے جسے سمجھنے کیلئے بعض حالتوں میں اپنی ذات تک کو دائو پر لگانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سیاست آج بھی درجہ بندیوں میں منقسم ہے۔ دوسری جانب غیرترقی یافتہ‘ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی سیاست میں درجہ بندیوں کا یہ عالم ہے کہ لفظ ’’جمہوریت‘‘ گم ہو کر رہ گیا ہے۔ بنیادی طور پر سیاست میرا موضوع نہیں بہت پہلے اس دشت کی سیاہی میں اپنے وطن کی سالمیت اور سیاسی عدم استحکام کیلئے درست راستہ تلاش کرنے کی ایک ہلکی سی کوشش ضرور کی تھی مگر افسوس!
تہمت لگاکے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے۔
ملک کے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی قیادتوں کی موجودگی میں اپنے تاریخی خطاب میں یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان دنیا کے ہر اس مظلوم انسان کے حقوق کیلئے آواز اٹھائے گا جو جارحیت کا شکار ہو۔ نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اس حالیہ 79 ویں اجلاس میں وزیراعظم نے تنازعہ کشمیر‘ غزہ میں اسرائیلی جارحیت‘ فوری جنگ بندی‘ موسمیاتی اور سیلابی تباہی پر فوری قابو پانے کیلئے اقدامات کرنے پر زور دیا۔ مجموعی طور پر وزیراعظم کے خطاب کو ملک و قوم کی امنگوں کا حقیقی ترجمان کہا جا سکتا ہے۔ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وزیراعظم نے پاکستان سمیت دنیا کے مظلوم عوام اور کشمیر و غزہ کے مسلمانوں کی تاریخی نمائندگی کی ہے۔ وزیراعظم لندن بھی تشریف لائے‘ مخصوص وفود اور مخصوص ڈیجیٹل میڈیا نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔ ملک کے معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی بحرانوں کی اگر بات کی جائے تو آئی ایم ایف کی جانب سے 7 ارب ڈالر سے زائد رقم کا دیا قرضہ ہوا کا ایسا جھونکا ہے جس سے قومی معیشت کے استحکام کی راہ ایک مرتبہ پھر ہموار ہونے کی توقع ہے۔
پاکستان کیلئے یہ نیا پروگرام اب 37 ماہ کا ہوگا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اس قرض پر جہاں دلی اطمینان کا اظہار کیا وہاں اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ قومی محنت اور جذبہ اسی طرح اگر جاری رہا تو پاکستان کا یہ آخری آئی ایم ایف پروگرام ہوگا۔ انہوں نے اقرار کیا کہ شرائط چونکہ کافی سخت تھیں اس لئے ہم نے اپنی کوشش‘ ہمت اور محنت سے یہ پوری کر دیں۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ نئے پروگرام کے تحت سات ارب ڈالر کی قسطوں پر ملنے والا قرض وقت مقررہ پر حکومت اتار پائے گی؟ کہ اپنی ’’لاجواب سروس‘‘ پی آئی اے اور ریلوے کی زبوں حالی کا غم قوم اور بالخصوص اوورسیز پاکستانیوں کو تاہنوز ناامیدی سے دوچار کئے ہوئے ہے‘ جبکہ ملک کے متعدد ایئرپورٹس مبینہ طور پر پہلے ہی لیز پر دیئے جا چکے ہیں جن سے کم از کم سالانہ بچت کی اب توقع کی جا سکتی ہے۔ اسے حسن اتفاق ہی کہہ لیں کہ سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بانی چیئرمین‘ ممتاز سماجی کاروباری شخصیت سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر اور باسکٹ بال کے معروف قومی کھلاڑی میاں محمد ریاض اور سیال کے ڈائریکٹر منور حسین چودھری‘ کینیڈا‘ امریکہ اور متعدد یورپی ممالک کے دورہ کے بعد برطانیہ کے نجی دورہ پر اگلے روز لندن آئے جہاں انہوں نے ایک غیررسمی ملاقات میں سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے آئندہ ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبوں اور سیال پر اترنے والے طیاروں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔
سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کل کتنی غیرملکی فلائٹس آتی ہیں‘ میں نے پوچھا۔ سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ نورانی صاحب کہ آپ نے اپنی مصروفیات کے باوجود میرا کھوج لگالیا۔ آپ کے سوال کے تناظر میں یہ بھی واضح کر دوں کہ سیال پاکستان کا پہلا ایسا جدید ایئرپورٹ ہے جو سوفیصد بزنس کمیونٹی کے مالی تعاون سے پرائیویٹ سیکٹر میں تعمیر کیا گیا۔ کسی بھی ملک کے ہوائی اڈے کو اس ملک کی اکانومی اور سکیورٹی کو مدنظر رکھ کر اپریشنل کیا جاتا ہے اس لئے ہماری قومی پالیسی کے مطابق سیالکوٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر موجودہ حالات میں آٹھ غیرملکی ایئرلائنز بشمول پی آئی اے 2007ء سے اپریشنل ہیں جبکہ یورپی ایئرلائنز سے بھی مذاکرات جاری ہیں۔ ایئرپورٹ کی تعمیر پر کتنی لاگت آئی اور آئندہ کے منصوبے کیا ہیں؟ ’’ہیتھرو‘‘ سمیت برطانیہ کے 6 بڑے ایئرپورٹس کے بارے میں آپکی معلومات وسیع ہیں۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ایئرپورٹ کی تعمیر آسان کام نہیں۔ باالعموم یہ مشکل ترین منصوبے حکومتیں ہی پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہیں مگر الحمدللہ! ہماری سیالکوٹ کی بزنس کمیونٹی کو یہ عالمی اعزاز حاصل ہے کہ ملک کا پہلا معیاری بین الاقوامی ایئرپورٹ ہم نے 4 بلین روپے میں مکمل کیا۔ یہی ایئرپورٹ اگر حکومتی سرپرستی میں کسی تعمیراتی کمپنی سے تعمیر کروایا جاتا تو اسکی لاگت 60 بلین سے تجاوز کر جاتی۔ ہوائی اڈوں کے ٹیکنیکل امور آپ مجھ سے چونکہ زیادہ سمجھتے ہیں‘ اس لئے آپ کو یہ بھی آگاہ کرتا چلوں کہ ہم نے یہ ایئرپورٹ کوڈ BOO یعنی Build-own- operate پر تعمیر کیا ہے۔ جہاں تک آئندہ منصوبوں کے بارے میں آپ نے سوال کیا‘ انشاء اللہ جلد ہی پانچ سٹار ہوٹل‘ شٹل سروس‘ نیا ٹرمینل اور دوسرے رن وے کے سلسلہ میں فزیبلیٹی پراسس کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ بے حد شکریہ۔ میاں محمد ریاض کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے ان سے اجازت لے لی۔