اسرائیلی جارحیت کا ایک سال

 آج ایک سال مکمل ہو رہا ہیاسرائیلی جارحیت کو۔ اس بربریت میں اب تک 50 ہزار سے زائد فلسطینی عوام جن میں خواتین بوڑھے بچے جوان شامل ہیں، شہید ہو گئے۔ 50 لاکھ کے قریب زخمی ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ اسرائیل کی اس کھلی بدمعاشی کو نہ تو عالمی عدالت انصاف روک سکی اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادیں اور اپیلیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی آ شیر باد سے اسرائیل عالمی غنڈا ریاست کے طور پر سامنے آیا۔ پہلی بات تو یہ کہ اسرائیل قابض ریاست ہے جس کے صیہونی باشندوں کو پناہ کے نام پر فلسطین کے علاقے میں آباد کیا گیا۔ وہی پناہ گزین اپنے محسن اور مشکل وقت میں کام آنے والے مسلمان فلسطینیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ ان کی زمینوں پر اپنے یہودیوں کی آباد کاری کر رہے ہیں۔ اب غزہ اسرائیلی جارحیت کے نرغے میں ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اسرائیل کی جارحیت کو کون روکے گا۔ جو ممالک اسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتے تھے امریکہ اور نیٹو افواج نے تو انہیں تباہ کر دیا جن میں لیبیا عراق شام یمن مصر قابلِ ذکر ہیں۔ باقی رہ گیا ایران تو اس نے قوتِ ایمانی کو تھام کر اسرائیل کو دوسری بار اپنے میزائیلوں کے نشانے پر رکھا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا معاملہ ہے تو اسے اور اس کی افواج کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشوں کے تحت کمزور کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ نو مئی کے واقعات اسی سازش کی کڑی تھے۔ جو بری طرح ناکام ہوئی اور آئندہ بھی انشاء اللہ بری طرح ناکام ہوگی کیونکہ ایک مضبوط فوج ملک کی ضامن ہوتی ہے۔ جس ملک کی افواج کمزور ہو وہ دشمن کا آسان ہدف ہوتا ہے۔ پاکستان کا دشمن براہ راست حملہ تو نہیں کر سکتا لیکن ہمیں اپنے اندرونی مسائل میں ضرور الجھا دیا گیا ہے اب مدعا وہی ہے کہ اسرائیل کو کون روکے گا۔ دنیا کی مذمتیں اور جنگ بندی کی اپیلیں رائیگاں گئیں۔ مذاکرات بے سود رہے۔ سفارتی کوششوں پر خاک پڑی۔ اور تو اور امریکہ اپنے 40 ہزار فوجی اور برطانیہ اپنے 700 فوجی اسرائیل کی حفاظت کے لیے بھیج رہا ہے۔ اور اپنے بحری بیڑے بھی۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ امریکہ اسرائیل کو ہر طرح کا جدید ترین خطرناک اسلحہ فراہم کر رہاہے۔ پھر اسرائیل کے حوصلے ان مظلوم فلسطینیوں کے مقابل کیوں بلند نہیں ہوں گے جن کے پاس اپنے دفاع کے لیئے کچھ بھی نہیں ہے۔ ان سے کیا خوف۔ یکم اگست کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں شہید کیا گیا۔ اسماعیل ہنیہ نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے مقیم تھے اور انہیں اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ تقریب سے واپس تہران میں اپنے ہوٹل پہنچے تھے۔ اسماعیل ہنیہ کے پورے خاندان کو شہید کیا جا چکا ہے۔ ان کا شمار عالم اسلام کی اہم شخصیات میں کیا جاتا تھا۔ اسرائیل نے 1982ء سے جنوبی لبنان کے علاقے پر قبضہ کر رکھا تھا لبنانی مسیحیوں کی مدد سے ساؤتھ لبنان آرمی بنا رکھی تھی۔ حسن اللہ نے لبنانی مسیحیوں کے ساتھ بات چیت کا آغاز کیا انہیں ساؤتھ آرمی اور اسرائیل کی حمایت سے روکا اور ایران کی مدد سے مزاحمت کو پھیلایا چنانچہ 2000ء میں اسرائیل کو جنوبی لبنان سے بھاگنا پڑا ساؤتھ لبنان آرمی کے افسروں اور جوانوں کو بھی اسرائیل کی طرف بھاگنا پڑا۔ یہ حسن نصر اللہ کی بہت بڑی کامیابی تھی اور اب 27 ستمبر کو حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی اسرائیلی حملے میں شہادت بلاشبہ پوری مسلم دنیا کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ فلسطینیوں کی بدقسمتی کا آغاز اس وقت ہی ہو گیا تھا جب 1943ء میں ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام شروع کیا۔ جوان، بچے، بوڑھے سب ہٹلر کے ہاتھوں مارے گئے۔ کچھ تو جان بچا کر مختلف ممالک میں نکلے اور ایک بڑی تعداد پناہ گزینوں کی صورت میں فلسطین پہنچی۔ ان یہودیوں کے جہاز پر لکھا تھا ہٹلر نے ہمارے گھر بار تباہ کر دیے۔ آپ ہماری امید کو نہ کچلنا۔ یہ وہ یہودی تھے جو منتیں التجائیں کرتے رحم کی بھیک مانگتے فلسطین پہنچے۔ آج اسرائیل اپنا ماضی بھول گیا اور جلاد بن گیا۔ جلاد صفت اسرائیل کی مدد کے لیے امریکہ برطانیہ فرانس کے بحری پیڑے پہنچ گئے۔ دو ارب مسلمان 57 اسلامی ممالک او ائی سی اور عرب لیگ بھی اسرائیل کے ظلم و ستم کو نہ روک سکی۔ کیا اسلامی ممالک اسرائیل کی بس مذمت کرتے رہیں گے یا پھر اسرائیلی منصوعات کے بائیکاٹ کی بحث میں الجھے رہیں گے۔ پاکستان کا بچہ بچہ بہرحال آخری سانس تک فلسطین کے ساتھ ہے۔

ای پیپر دی نیشن