دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کے درمیان کارکردگی کی بنیاد پر مقابلہ ہوتا ہے اور عوام بھی باشعور ہیں‘ اسی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں ووٹ دیتے ہیں۔ پاکستان میں شرح خواندگی میں کمی اور بطور ایک قوم سوچ رکھنے کے بجائے ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں تقسیم در تقسیم ہیں اسی وجہ سے الیکشن میں ووٹ دینے کا معیار رنگ‘ نسل‘ فرقہ‘ برادری سمیت مختلف معیار ہیں اور کہیں سرداری نظام کے تحت رعایا بن کر ووٹ دیئے جاتے ہیں۔ کہیں اپنی گلی میں پانی‘ بجلی کے مسائل حل کرانے کے بعد ووٹ دے دیئے جاتے ہیں لیکن پورے پاکستان کے مفادات یا صوبے کے مفاد کی سوچ رکھ کر ووٹ نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ سیاستدانوں کی کارکردگی بھی کوئی اتنی اعلٰی نہیں رہی کہ ان کو ملائیشیا کے مہاتیر محمد کی طرح قومی مفاد میں بہترین لیڈر قرار دے کر پوری قوم اس کے لئے یکجا ہوجائے۔
2016ء میں پانامہ لیکس آنے سے پہلے تک ملک معاشی طور پر بہترین پوزیشن میں تھا اور بے روزگاری و مہنگائی میں نمایاں کمی کی جانب گامزن تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب لوگ مہنگائی کی اتنی زیادہ شکایت نہیں کرتے تھے لیکن پانامہ لیکس کی عالمی سازش کے ذریعے ملک میں اقتدار کے ایوانوں میں تبدیلی کی جانب سفر شروع ہوا اور پھر حزب اقتدا رجماعت کو سائیڈ لائن کردیا گیا۔ نئے اقتدار میں آنے والوں نے ملک بھر میں ترقیاتی کام منجمد کیا اور الیکشن 2018ء کے بعد سے مہنگائی و بے روزگاری کی ایسی لہر اٹھی کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں۔ ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچادیا گیا اور اس بارے میں استفسار کرنے پر کہا جاتا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وباء نے دنیا بھر کو معاشی طور پر شدید متاثر کیا ہے۔ اس نسبت سے تو پاکستان میں اس کے اثرات بہت کم دیکھنے میں آئے ہیں۔
گزشتہ حکومت کے دوران پنجاب کو دانستہ طور پر تباہ کیا گیا حالانکہ الیکشن 2018ء سے پہلے کا پنجاب بہت خوشحال تھا۔ اب تو پنجاب میں کسان بدترین حالات کا شکار ہوچکا ہے۔ کھاد‘ بیج‘ زرعی ادویات اور ٹیوب ویل کا پانی اتنا مہنگا ہوچکا ہے کہ زرعی زمینوں پر کاشتکاری میں نمایاں کمی ہوتی چلی جارہی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملک کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہونے کی وجہ سے اب ملک معاشی مشکلات کا شکار ہوا ہے۔ جب تک کسان خوشحال نہیں ہوگا‘ اس وقت تک پاکستان کی خوشحالی ممکن نہیں۔
الیکشن 2024ء کے بعد ایک صوبے میں تحریک انصاف‘ ایک میں ن لیگ‘ 2میں پیپلزپارٹی اور وفاق میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت قائم ہے۔ الیکشن 2024ء کے انعقاد سے قبل بننے والی نگران حکومت نے جب ملک کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت ملک بدترین معاشی حالات کا شکار تھا۔ آرمی چیف سید عاصم منیر نے ایپکس کمیٹی برائے غیر ملکی سرمایہ کاری قائم کرائی جس میں عسکری قیادت خود شریک ہوتی ہے اور ملک و صوبوں کے متعلق تمام اہم فیصلے اسی کمیٹی میں کئے جاتے ہیں۔ ایپکس کمیٹی کے قیام کے بعد سے حیران کن طور پر ملک میں ڈالر کے ریٹ میں نمایاں کمی آئی‘ سمگلنگ پر قابو پایا گیا اور امن و امان کی حالت میں نمایاں بہتری آئی۔ پاکستان نے امداد نہیں بلکہ سرمایہ کاری کا نعرہ لگاکر کام شروع کیا اور دوست ممالک سمیت عالمی دنیا نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے معاہدے کرنے شروع کئے۔ ایپکس کمیٹی کی بدولت ہی 42000 انڈیکس پر انجماد کا شکار اسٹاک مارکیٹ اب تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ مارک اپ کی شرح 24%فیصد سے بتدریج کم ہوکر اب 17%پر آچکی ہے اور کہا جارہا ہے کہ عنقریب مارک اپ کی شرح 7%تک جاسکتی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد ملک میں مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے۔
ایک مخصوص سیاسی ٹولے کی خواہش تھی کہ ملک ڈیفالٹ کرجائے اور ملک میں افراتفری پیدا ہو جس سے وہ اپنے سیاسی عزائم حاصل کرنے کے درپے تھے۔ لیکن تمام تر سیاسی ہتھکنڈوں اور سوشل میڈیا جعلی مہم کے باوجود الحمداللہ پاکستان مسلسل بہتری کی جانب گامزن ہے اور تمام عالمی ادارے اب پاکستان کی معیشت کو مضبوطی کی جانب جاتا دیکھ کر پاکستان پر اعتماد کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے 7ارب ڈالر کا قرض منظور کرکے اگلے ہی دن 1ارب ڈالر پاکستان کو دے دیئے۔ اسی طرح دوست عرب ممالک‘ چین سمیت مغربی ممالک کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا عندیہ دیا جارہا ہے۔
ایسے میں حب الوطنی کا تقاضہ تو یہی ہے کہ ملک کو معاشی طور پر مستحکم و مضبوط بنانے کے لئے تمام سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک میں سیاسی استحکام پیدا کریں اور اپنی کارکردگی پر توجہ دیں تاکہ کارکردگی کی بنیاد پر مستقبل میں سیاست کرسکیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ایک وزیراعلیٰ اشتعال انگیز سیاست کررہے ہیں اور مسلسل دوسرے صوبے میں بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے یقینی طور پر ملک کو نقصان ہوتا ہے اور کسی منتخب وزیراعلیٰ کو یہ بات زیب نہیں دیتی اور نہ ہی اس سے ان کو اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔ بہتر تو یہی ہے کہ اپنی کارکردگی پر توجہ دیں اور بڑھکوں کی سیاست کو بالائے طاق رکھیں۔ پہلے بھی جب 2014ء کے دھرنے کا آغاز کیا گیا تھا اس وقت چین کے صدر پاکستان آکر سی پیک جیسے عالمی منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے آرہے تھے لیکن دھرنوں کو ملتوی نہیں کیا گیا جس سے ملک کی بدنامی ہوئی۔ اب ایک بار پھر ملک معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے اور تمام معاشی اعشاریئے مثبت سمت کی جانب گامزن ہیں تو آئے روز اسلام آباد و پنجاب پر لشکر کشی کی کوشش کرکے ملک کو عدم استحکام کی جانب دھکیل کر آخر کس کو خوش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ کیا دوسرے صوبوں کے وزراء اعلیٰ آپ کے صوبے میں اس طرز کی بے چینی پیدا کرنے کا موجب بن رہے ہیں؟ باقی تمام وزراء اعلیٰ تو اپنی کارکردگی پر توجہ دیکر عوام کو ریلیف دینے کی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔
عوامی احتجاج کے نام پر ملک کے دفاع کے ذمہ دار اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی اور نعرے بازی کرکے دشمنوں کو خوش کیا جارہا ہے۔ ملک کے دفاع و سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی ناجائز طور پر کردار کشی اور عوام کے دلوں میں اداروں کے خلاف نفرت پیدا کرنا کہاں کی حب الوطنی ہے؟ رہی کارکردگی کی بات تو ماشاء اللہ احتجاج کرنے والی جماعت نے اپنے اقتدار کے دوران ملک کو کہاں پہنچا دیا؟ صرف نعرے بازی اور بڑھکیں مارنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ اصل مقابلہ کارکردگی کا ہوتا ہے۔ حقیقی جائزہ لیا جائے تو آپ کو خوشحال حالات میں پاکستان ملا اور آپ نے ڈیفالٹ پوزیشن میں پہنچا کر پاکستان واپس کیا۔ اب ایک بار پھر بہت محنت و مشقت اور جانفشانی سے عسکری و سیاسی قیادت مل کر ملک کو معاشی استحکام کی جانب لے جارہی ہے تو پھر آپ سے برداشت نہیں ہورہا۔ خدارا۔ پاکستان اور اس کے عوام پر رحم کریں اور ملک کو سیاسی و معاشی استحکام کی جانب جانے دیں۔ آپ سیاست برائے خدمت کریں۔ بڑھکوں کی سیاست اور کارکردگی کی سیاست اب لوگوں کے سامنے آنا شروع ہوگئی ہے۔ اگر آپ نے تہیہ کرلیا ہے کہ موجودہ حکومت کو ہر صورت ہٹانا ہے اور مارشل لاء لگوانا ہے تو پھر اس مقصد کے تحت آپ درست کر رہے ہیں کہ ملک میں مارشل لاء نافذ کرنا ناگزیر بنادیا جائے۔