پاکستان کے درآمد شدہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ان دنوں اپنی طرف سے ملک کی معیشت کو سدھارنے کے لیے مختلف طرح کے اقدامات کررہے ہیں۔ ان کے یہ اقدامات ماضی میں اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں سے کتنے مختلف ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے ہو جاتا ہے کہ ان کا بھی سارا زور تنخواہ دار طبقے پر ہی چل رہا ہے۔ ان کی طرف سے بار بار کہا جارہا ہے کہ نان فائلرز کے خلاف یہ کردیا جائے گا، نان فائلرز کو یہ نہیں کرنے دیا جائے گا، نان فائلرز پر فلاں پابندیاں لگا دی جائیں گی، نان فائلرز کو فلاں سہولیات نہیں ملیں گی وغیرہ وغیرہ۔ وزیر خزانہ کا یہ کہنا درست ہے کہ دنیا میں کہیں بھی فائلر نان فائلر کی تمیز نہیں ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی نہیں بتائیں گے کہ پوری دنیا میں کہیں بھی حکومتیں اشرافیہ میں یوں اندھا دھند ملکی خزانہ بھی نہیں بانٹتی ہیں جیسے پاکستان میں ایک لمبے عرصے سے کیا جارہا ہے۔
یہ بات یقینا اب تک وفاقی وزیر خزانہ کے علم میں آچکی ہوگی کہ پاکستان ہر سال سرکاری خزانے سے کتنے ارب ڈالر کی مراعات و سہولیات اشرافیہ کو دیتا ہے۔ انھیں یہ بھی پتا لگ چکا ہوگا کہ یہاں بیوروکریسی کو گریڈ سترہ سے لے کر بائیس تک الاؤنسز کے نام پر جو کچھ دیا جاتا ہے دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ پارلیمان میں بیٹھے جاگیرداروں، صنعت کاروں اور کاروباری حضرات کے مفادات کے تحفظ کے لیے یکے بعد دیگرے تشکیل پانے والی حکومتیں جو کچھ کرتی ہیں وہ اس سے بھی بخوبی واقف ہوچکے ہوں گے۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود انھوں نے تقریباً سات مہینے کے دوران کبھی یہ زحمت گوارا نہیں کی کہ ان طبقات کے خلاف بھی کوئی بات کرلیں۔ انھوں نے آج تک کوئی ایک بھی ایسا بیان نہیں دیا جس سے پتا چلے کہ وہ غریب اور محنت کش طبقات کا خون نچوڑنے کی بجائے ان لوگوں کے ہاتھ روکنے کے لیے بھی کوئی پالیسی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جنھوں نے لوٹ مار مچائی ہوئی ہے۔
اب ذرا اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ عام آدمی فائلر کیوں نہیں بننا چاہتا۔ اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارا ہاں ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا عمل اتنا پیچیدہ ہے کہ کالج یونیورسٹی کا عام گریجوایٹ بھی اسے سمجھنے سے قاصر ہے۔ عام طور پر اس کام کے لیے آپ کو کسی وکیل یا ایسے شخص کی خدمات لینا پڑتی ہیں جو اکاؤنٹس یا ٹیکس کے معاملات سے واقف ہو۔ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ تنخواہ دار افراد کی تنخواہ جیسے ہی ٹیکس کی حد میں پہنچتی ہے تو وہ سرکاری نوکری کررہے ہوں یا نجی اداروں کے ملازم ہوں، ان کو تنخواہ ٹیکس کٹوتی کے بعد ہی ملتی ہے۔ یوں یہ افراد سمجھتے ہیں کہ جب ہر ماہ تنخواہ سے ٹیکس کی کٹوتی ہو ہی رہی ہے تو پھر ہر مالی سال کے آخر میں حکومت کو الگ سے حساب کیوں دیا جائے؟ علاوہ ازیں، نیم شہری اور دیہی علاقوں میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کی آمدن کسی نہ کسی طرح ٹیکس کی حد میں تو آتی ہے لیکن وہ ان معاملات سے واقف ہی نہیں ہیں۔
ملک بھر میں ایسے افراد بھی بہت زیادہ تعداد میں موجود ہیں جو ایک نوکری کے ساتھ دوسری نوکری یا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر کے اپنے گھریلو اخراجات پورے کرتے ہیں۔ ان میںقابلِ ذکر تعداد ایسے افراد کی ہے جن کی دونوں میں سے کوئی بھی آمدن ٹیکس کی حد میں نہیں آتی لیکن اگر ان دونوں کو اکٹھا کر لیا جائے تو ان کی مجموعی آمدن پر ٹیکس لگتا ہے۔ ان افراد کو بجا طور پر یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر انھوں نے اپنی مجموعی آمدن ظاہر کی تو ٹیکس کی مد میں انھیں اتنی رقم ادا کرنی پڑے گی کہ پھر اخراجات پورے کرنے کے لیے انھیں مزید آمدن کی ضرورت ہوگی۔ حکومت ان افراد کے بارے میں نہ صرف یہ کہ کچھ مثبت سوچتی نہیں بلکہ وہ انھیں کسی قسم کا ریلیف بھی فراہم نہیں کرنا چاہتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ افراد حکومت کے ٹیکس وصولی سے متعلقہ اقدامات سے ناخوش ہیں اور اسی وجہ سے یہ لوگ کسی بھی صورت میں ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہتے۔
اس معاملے کا ایک نہایت اہم پہلو یہ ہے کہ حکومت ٹیکس کی ادائیگی کے لیے مہذب انداز میں لوگوں کو آگاہی مہیا کر کے انھیں ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب نہیں دیتی بلکہ انھیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ کالم کے آغاز میں وزیر خزانہ کے بیانات سے اخذ شدہ کچھ باتیں نقل کی جاچکی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نان فائلرز کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے ہیں جو ایک تھانیدار کا کسی مجرم کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر حکومت واقعی ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہتی ہے تو ڈرانے دھمکانے کی بجائے اس سلسلے میں لوگوں کو آگاہی کیوں نہیں دی جاتی؟ تعلیمی اداروں میں سیمیناروں وغیرہ کے ذریعے نوجوان نسل کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ محصولات کی ملکی معیشت کے لیے اہمیت کیا ہے؟ سرکاری خزانے سے اشرافیہ اور بیوروکریسی کو دی جانے والی بے تحاشا مراعات و سہولیات کا راستہ روک کر عوام کا نظام پر اعتماد کیوں قائم نہیں کرایا جاتا؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹیکس وصولی کا نظام بہتر بنانے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن پر حکومت سرے سے کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ مزید یہ کہ ٹیکس وصولی کا ہدف صرف عام آدمی کو بنا کر ایک ایسی بنیادی غلطی کی جارہی ہے جس سے معیشت کو نقصان تو پہنچ سکتا ہے، اور پہنچ رہاہے، لیکن اس سے فائدہ کوئی نہیں ہوگا۔ اس ملک میں بہت سی صنعتیں اربوں کھربوں روپے کے ٹیکس فراڈ کررہی ہیں لیکن کوئی بھی حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ تنخواہ دار طبقے کی طرف سے سالانہ بنیادوں پر جو ٹیکس ادا کیا جارہا ہے وہ کئی صنعتوں کی طرف سے ادا کیے جانے والے ٹیکس سے کہیں زیادہ ہے۔ اندریں حالات، اگر کوئی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ صرف عام لوگوں سے ٹیکس وصول کر کے معیشت کو مستحکم بناسکتی ہے تو اسے خام خیالی کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا!