وزیراعلی ہاؤس کے باہر نابینا مظاہرین پر پولیس کا تشدد
جہاں آنکھوں والوں کو پولیس نہیں چھوڑتی وہاں ان بصارت سے محروم افراد کو کیا بخشے گی۔ اب ان کی فریاد کون سنے گا۔ گزشتہ روز وزیر اعلی ہائوس کے باہر اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرنے والے نابینا افراد پر پولیس نے تشدد کیااور اس وقت ڈنڈے برسائے جب وہ وزیر اعلی ہائوس تک جانا چاہتے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوامی حکومت کہلانے والی پارٹی کی رہنما خود باہر آ کر ان سے ملاقات کرتیں اور چند میٹھے بول کہہ کر ان کے مشتعل جذبات ٹھنڈے کر دیتیں مگر شاید وہ وزیراعلیٰ ہائوس میں نہیں ہوں گی۔ اب پولیس نے مشتعل مظاہرین کو وہاں سے ہٹانے کے لیے ان بصارت سے محروم افراد پر ڈنڈے برسانا شروع کر دیئے۔ اب جو بے چارے دیکھ ہی نہیں سکتے وہ بھلا ان ڈنڈوں سے خود کو کیسے بچاتے جو ناگہانی آفت کی طرح ان پر اولوں کی طرح چاروں طرف سے برس رہے تھے۔ حکمرانوں کو احساس کرنا چاہیے کہ ان معذور افراد کو ان کے کوٹے کے مطابق نوکریاں دے، سہولتیں دے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ ان کی جگہ اچھے بھلے سفارشی لوگ نوکریاں حاصل کر لیتے ہیں۔ جھوٹے معذوری کے سرٹیفکیٹ بنا لیتے ہیں یوں یہ حقدار محروم رہ جاتے ہیں۔ اب کیا وہ اس ظلم کے خلاف آواز بھی نہ بلند کریں۔ شور بھی نہ مچائیں۔ یہ اچھی زور زبردستی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیدیا ہے۔ اس سے بہتر تھا وہ ان کے مطالبات تسلیم کرنے کی تسلی دیتیں تاکہ یہ مطمئن ہو کر دھرنے سے اٹھ جاتے۔ اب یہ بات بھی عجیب لگ رہی ہے کہ ان نابینا افراد کے تشدد سے چند پولیس والے بھی زخمی ہوئے ہیں۔ حیرت ہے انہوں نے ایسا کیسے کیا۔ شاید کوئی ایک آدھ پولیس والا ان کے نرغے میں آیا ہو تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
بلوچستان اسمبلی کی موجودہ عمارت گرا کر نئی عمارت بنانے کا منصوبہ۔
خدا کرے یہ خبر نہ ہو افواہ ہو۔ کیونکہ جس اسمبلی میں کوئی ڈھنگ کا کام ہی کم ہوا ہو۔ اسے گرا کر نئی عمارت بنانے سے کیا حاصل ہو گا۔ سوائے اس کے کہ محکمہ تعمیرات، ٹھیکیداروں اور وزرا کو کچھ مالی فائدہ ہو گا ورنہ یہ بھی ایک اچھی بھلی عمارت ہے جو بلوچستان کی ثقافت کے نمائندہ خیمہ کی عکاس ہے۔ اب نئی عمارت میں ایسا کیا نیا پن ہو گا جو دیکھنے والوں کی نگا ہوں کو خیرہ کر دے گا۔ اصل بات عمارت میں نہیں ہوتی عمارت میں کام کرنے اور وہاں بیٹھنے والوں کی ہوتی ہے۔ اگر وہ صوبے سے ،عوام سیمحبت کرنے والے ترقی اور خوشحالی کی راہ دکھانے والے ہوں گے ، تو عمارت خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہو صوبہ اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ عوام خوشحال ہوتے ہیں۔ کارکردگی کے اعتبار سے دیکھیں تو بلوچستان اسمبلی کی کارکردگی کوئی ایسی خاص نظر نہیں آتی۔ اگر اسمبلی میں دھینگامشتی اور دنگافساد میں ہی یہ اچھی کارکردگی دکھاتی، کوئی خاص نمونہ پیش کرتی تو بھی اسے کچھ اضافی نمبر مل سکتے تھے۔ مگر وہاں تو اجلاس ہو رہا ہو یا نہیں سدا ہْو کا عالم رہتا ہے۔ لگتا ہے سب سو رہے ہیں۔ کسی کو سوائے تنقید کرنے شور کرنے کے۔ آئینی معاملات ، عوامی مسائل صوبے کی تعمیر و ترقی کا کسی کو پتہ ہی نہیں۔ تعلیم ، صحت، روزگار ذرائع آمدورفت اور سڑکوں کا جو حال ہے وہ بہتر بنانے سے پہلے نئی عمارت بنانے کا سوچنا بھی ذہنی عیاشی ہو گا خیر سے اسمبلی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ، سردار، نواب اور خان بھی بیٹھے ہیں۔ وہ اس فضول خرچی کے خلاف اپنی آواز بلند کریں تاکہ عوام کو بھی پتہ چلے کہ کوئی تو ان کے لیے بھی بول رہا ہے۔
14 سال بعد پاکستانی راک سٹار بینڈ کی ڈھاکہ میں پرفارمنس۔شائقین کا رش۔
آہستہ آہستہ ہی سہی مگر دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان نفرتوں کی خلیج اب پاٹی جانے لگی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ زبان نہ سہی بہت سی دیگر چیزیں تو یکساں ہیں۔ جس طرح رونا لیلیٰ، شہناز بیگم، شبنم، رحمن ، روبن گھوش بھی دونوں کے درمیان مشترکہ ہیں۔ اسی طرح موسیقی کا شوق بھی یکساں ہے۔ جیوے جیوے پاکستان سے لے کر میرا بابو چھیل چھبیلا اور،یہ موسم یہ مست نظارے ، جیسے گیت آج بھی دونوں طرف مقبول ہیں۔ اب جب محبت کے پھول کھلتے ہیں تو فضا خودبخود خوشبو سے مہک اٹھتی ہے۔ گزشتہ روز ڈھاکہ میں اسی طرح کی ایک محفل طرب جو رنگ، روشنی اور خوشبو میں معطر تھی برپا ہوئی۔ جس میں پاکستان کے معروف راک سٹار بینڈ نے بھی بنگالی فنکاروں کے ساتھ شرکت کی۔ طویل عرصے بعد ڈھاکہ میں پاکستانی گلوکاروں کو سننے کے لیے اتنی بڑی تعداد میں شائقین آئے کہ ہال میں بدنظمی پھیل گئی۔مار پیٹ دھینگا مشتی کے باعث فوج بلائی گئی جس نے آ کر صورتحال کنٹرول کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب بنگلہ دیش میں بھارت کی پھیلائی نفرت کی دھند چھٹ رہی ہے۔ وہاں کی نئی نسل جدید دور کے تقاضوں اور حالات کو جان گئی ہے۔ وہ بھارت کی چالوں سے واقف ہو چکے ہیں جو انہیں مشترکہ کلچر کے نام پر اپنی غلامی میں لے جا رہا تھا۔ اب اگر پاکستانی گروپ کوئی قوالی نائٹ کے نام پر وہاں پرفارم کرے تو یقین جانئیے بہت ہی زیادہ لوگ آئیں گے کیونکہ قوالی کو سننے والے ہر جگہ بہت ملتے ہیں۔ ویسے بھی موسیقی کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ ساز و آواز دل کو موہ لیتے ہیں۔ قوالی میں تو خودبخود لوگ وجد میں آ جاتے ہیں دھمال ڈالتے ہیں۔ جیسے رونا لیلیٰ کے دمادم مست قلندر پر وہاں لوگ جھومتے تھے۔ اب اوربھی سماں باندھا جا سکتا ہے۔
بشریٰ بی بی کو جیل میں تنگ کیا جاتا ہے۔ بیرسٹر سیف ، مریم نواز کا اس مسئلے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ عظمیٰ بخاری
پاکستانی سیاست میں اس وقت خواتین کے حوالے سے جس انداز میں بیان بازی ہو رہی ہے اور خود خواتین بھی جس طرح کی زبان استعمال کر رہی ہیں وہ نہایت غیر مناسب اور غلط ہے۔ نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو ، کلثوم نواز، مریم نواز کے بعد بشریٰ بی بی پاکستانی سیاست میں سامنے ہیں۔ ان میں سے کئی بڑی بڑی خواتین نے جیل کی سزا بھی کاٹی بدترین مارشل لا کے ظلم و جبر کا سامنا بھی کیا۔ بدزبانی بھی برداشت کی اور تشدد بھی سہا، اب پی ٹی آئی والے اپنے بانی کی اہلیہ کی جو اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور یہاں وہ اپنی مرضی سے آئی ہیں ورنہ پہلے اپنے گھر بنی گالہ میں قید تھیں جسے سب جیل قرار دیا گیا تھا۔ وہاں شور مچا کہ انہیں کھانے میں زہر دیا جا رہا ہے۔ اب خیبر پی کے حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ جیل میں انہیں تنگ کیا جا رہا ہے۔سونے نہیں دیا جاتا ،باربار ان کے سیل یا کمرے کی تلاشی ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ مگر ایسا ہی باقی سب قیدی خواتین کے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے۔ اس کے جواب میں مسلم لیگ پنجاب حکومت کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے جواب دیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو تو علم ہی نہیں ہو گا کہ بشریٰ بی بی اڈیالہ کی کس بیرک کے کونسے سیل میں بند ہیں۔ جہاں انہیں اور ان کے شوہر کو دیسی مرغے ،انڈے اور پلائو مل رہا ہے جووہ کھاتے ہیں۔ مریم نواز کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں۔ پی ٹی آئی والے عورت کارڈ کا استعمال بند کریں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیاسی منظرنامہ کیا بن گیا ہے۔ عورت خواہ کسی بھی جماعت کی ہو اس کا احترام لازم ہے۔ اگر کوئی شکایت ہے تو اسے رفع دفع کیا جا سکتا ہے۔ یوں کسی کو بھی عورتوں پر سیاست کرنے کاحق نہیں ہے۔ پی ٹی آئی والوں نے اگر اچھی روایت قائم کی ہوتی تو شاید انہیں بھی آج کوئی شکایت نہ ہوتی۔